بیرون ملک اثاثوں کی واپسی: عدالت نے کمیٹی کی سفارشات مسترد کردیں
اسلام آباد: عدالت عظمیٰ نے بیرون ملک چھپائی گئی غیرقانونی دولت واپس لانے سے متعلق تین رکنی کمیٹی کی سفارشات پرعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور ٹیکس کنسلٹنٹ کو بطور عدالتی معاون مقرر کردیا۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے از خود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے سفارشارت کو غیر موثر قرار دیا اور مذکورہ معاملے میں معروف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ شبرزیدی اور ٹیکس کنسلٹنٹ محمود مانڈوی والا کو عدالتی معاون تعینات کردیا۔
اس سے قبل عدالت عظمیٰ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے طارق باجوہ، فنانس سیکریٹری عارف احمد خان اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)کے چیئرمین طارق محمود پاشا کو ہدایت کی تھی کہ عوام کا پیسہ لوٹ کر بیرون ملک اثاثے بنانے والوں کی نشاندہی کی جائے اور اثاثوں کی واپسی کے لیے طریقہ کار واضح کیا جائے۔
یہ پڑھیں: روپے کی قدر میں کمی سے کیا فائدہ اور نقصان ہوتا ہے؟
تین رکنی کمیٹی نے سفارشارت میں تجویز دی کہ موجودہ قانونی ڈھانچہ غیر ملکی زرمبادلہ کی منتقلی اور رکھنے کے حوالے سے خاصی ’لبرل‘ ہے جس میں ضروری چیک اینڈ بیلس کے عمل کو یقینی بنا کر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
کمیٹی نے تجویز پیش کی کہ مقامی ایکسچینج کمپنیز سے غیر ملکی کرنسی خرید کر اپنے ہی غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹ میں جمع کرانے پر پابندی لگائی جائے۔
اس حوالے سے تین رکنی کمیٹی کا کہنا تھا کہ تحریری وضاحت دیئے بغیر بیرونی ملک کی کرنسی کو کیش کی مد میں نہیں دیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: غیر ملکی اثاثوں پر نواز سمیت 63 سیاستدانوں کوعدالتی نوٹس
عدالت عظمیٰ کو جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 111(4a) کے تحت پاکستان کے ہر بینک سے غیر ملکی کرنسی کی ترسیلات کی حد پر کوئی قید نہیں ہے۔
جس پر تین رکنی بینچ کے رکن جج جسٹس عمر عطا نے ریمارکس دیئے کہ کمیٹی نے اپنی سفارشارت میں کوئی قابل ذکر بات نہیں کی اور حکومت کی جانب سے ایمنسٹی اسکیم متعارف کرائی گئی جس میں متعدد نقائض تھے لیکن انہیں درست نہیں کیا گیا۔
جسٹس نے کمیٹی کی سرزنش کرتے ہوئے انہیں سنجیدہ رویہ اختیار کرنے پر زور دیا اور کہا کہ پاناما پیپز اور پیراڈائز پیپرز کے بعد غیر ملکی اثاثنوں کی تفصیلات منظر عام پر آچکی ہیں۔
فنانس سیکریٹری نے عدالت عظمیٰ کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ کمیٹی نے بیرون ملک سے پاکستان میں رقم کی منتقلی کی حوصلہ افزائی کے لیے بہت جدوجہد کی ہے۔
مزید پڑھیں: غیر ملکی فنڈنگ کیس: الیکشن کمیشن کا دائرہ کار چیلنج
جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ’بیرون ملک پاکستانیوں کے املاک کی نشاندہی کے لیے ٹھوس نتائج کی ضرورت ہے‘۔
کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ زرمبادلہ کی ترسیل ایک محدود دائرے میں رہے تو فائدہ مند ہوتی ہے اور اس طرح منی لانڈرنگ کے بھی امکانات نہیں پیدا ہوتے ۔
ساتھ ہی تین رکنی کمیٹی نے انکشاف کیا کہ متعلقہ سرکاری ایجنسیوں کی جانب سے صحیح معلومات کی عدم فراہمی کی وجہ سے بھی کئی معاملات میں مشکلات ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’بیرون ملک میں غیرقانونی اثاثے بنانے والوں کو رضاکارانہ طور پر اپنے اثاثے ظاہر کرنے کا موقع دیا جائے‘۔ بعدازاں عدالت نے کمیٹی کو تمام معاملات چارٹرڈ اکاؤنٹنڈ اور ٹیکس کنسلٹینٹ کو فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔
یہ خبر 15 مارچ 2018 کو ڈان اخبارمیں شائع ہوئی