'سینیٹ الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے تو کھل کر بات کرنی چاہیے'
حکمراں جماعت مسلم لیگ(ن) کے رہنما شیخ وقاص نے ریاستی اداروں سے محاذ آرائی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں کسی کو اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ نظر آتا ہے تو کھل کر بات کرے لیکن لوگ نجی محافل میں ایسی باتیں کرتے ہیں۔
ڈان نیوز کے پرگرام نیوز آئی میں بات کرتے ہوئی مسلم لیگ(ن) کے رہنما شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ 'ذاتی طور پر پہلے بھی کئی دفعہ میڈیا پر کہہ چکا ہوں کہ میں اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کے بالکل حق میں نہیں ہوں کیونکہ ہم یہاں سے چلے جائیں گے پر اس ملک اور اس کے اداروں کو قائم رہنا ہے'۔
سیاسی رہنماؤں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'سیاسی لیڈر میں اگر سچ بولنے کی ہمت نہ ہو تو چاہے وہ کسی بھی پارٹی کا لیڈر ہو اس کو دوسروں کو لیکچر دینے کا کوئی حق نہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اگر آپ سمجھتے ہیں کے سینیٹ الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے تو پھر کھل کر بات کریں، یہاں لوگ اپنی ذاتی محفلوں میں گفتگو ضرور کرتے ہیں مگر کھل کر بات کرنے کی کسی میں ہمت نہیں ہے'۔
مزید پڑھیں: حکمراں جماعت کو سینیٹ انتخابات میں ناکامی کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟
ایک سوال پر شیخ وقاص نے کہا کہ 'ہمارے سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین کی زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ ذاتی جارحیت یا شکایات کی بنا پر چیزوں کو نظر انداز کرتے ہیں جس کی وجہ سے معاملات درست پیرائے میں سامنے نہیں آتے'۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی ائی) کے رہنما عارف علوی کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے جمہوریت کے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے اگر آپ اداروں سے محاذ آرائی کریں گے تو اس بات کا بھی امکان ہے کہ ادارے رد عمل ظاہر کریں جو کہ انھیں نہیں کرنا چاہیے۔
سینیٹ چیئرمین کے انتخاب پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'بلوچستان کے حوالے سے اتنا بہترین فیصلہ سامنے آیا ہے اب بجائے اس کو سراہنے کے کہا جارہا ہے کہ ہمارے ساتھ فلاں فلاں سازش ہوئی جو انتہائی غلط بات ہے۔
عارف علوی نے کہا کہ جب 2013 میں سینیٹ کا یہی آزاد امید واروں کا گروپ نواز شریف کے ساتھ مل گیا تھا تو کوئی سوال یا سازش نہیں تھی اور اب 2018 میں آزاد امیدواروں کا گروپ الگ ہوگیا تو پھر بہت بڑی سازش کا راگ الاپا جارہا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ(ن) کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے لیے رضا ربانی کی حمایت کی گئی تھی، تاہم پیپلز پارٹی کی جانب سے رضا ربانی کے نام کو مسترد کردیا گیا تھا اور انھوں نے اس عہدے کے لیے نیا امیدوار لانے کا اعلان کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات میں کب، کیا اور کیسے ہوتا ہے؟
دوسری جانب تحریک انصاف نے پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کو چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا تھا،تاہم وزیراعلیٰ بلوچستان کی سربراہی میں وفد سے ہونے والی ملاقات کے بعد عمران خان نے پیپلز پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین کو ووٹ دینے کا اعلان کردیا تھا۔
پی پی پی اور پی ٹی آئی کے اتحاد کے باعث بلوچستان سے آزاد منتخب ہونے والے صادق سنجرانی کو چیئرمین اور پی پی پی کے سلیم مانڈوی والا کو ڈپٹی چیئرمین منتخب کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ صادق سنجرانی کو پی پی پی قیادت کا قریبی تصور کیا جاتا ہے جن کی حمایت کے عوض پی پی پی نے ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ بھی حاصل کر لیا۔