• KHI: Fajr 5:24am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:59am Sunrise 6:22am
  • ISB: Fajr 5:06am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:24am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:59am Sunrise 6:22am
  • ISB: Fajr 5:06am Sunrise 6:31am

حکمراں جماعت کو سینیٹ انتخابات میں ناکامی کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟

شائع March 13, 2018

اسلام آباد: حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کو شبہہ ہے کہ ان کی پارٹی کے 2 سینیٹرز سمیت تقریباً 7 سینیٹرز نے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں ان کی جماعت کو دھوکا دیا۔

حکمراں جمات کے امیدوار راجا ظفرالحق نے سینیٹ چیئرمین کی نشست پر 46 ووٹ حاصل کیے، یہ تعداد چار جماعتوں کے سینیٹ اراکین پر مشتمل ہے جو حکمراں جماعت کے اتحادی رہے۔

یہ پڑھیں: چیئرمین شپ صادق سنجرانی کیلئے ایک امتحان ہوگی، لیگی رہنما

اس سے واضح ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سیاسی اتحادیوں کے علاوہ راجا ظفرالحق کو باہر سے ووٹ نہیں ملا یا اسی سیاسی اتحاد میں سے ہی کسی ممبر نے پارٹی کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپوزیشن جماعت کوووٹ ڈالا۔

اس سے قبل مسلم لیگ (ن) رہنماؤں نے بھرپور اعتماد سے کہا تھا کہ پارٹی نے تمام اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت مکمل کرلی ہے اور حکمراں جماعت 57 ووٹ لے کر کامیاب ہوگی۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا تھا کہ ہمارے حساب میں 57 ووٹ پارٹی کے تھے جبکہ اپوزیشن کو 46 ملنے تھے ‘ تاہم صورتحال یکسر بدل گئی ہے جو بہت مایوس کن ہے‘۔

پانچ پارٹیوں پر مشتمل حکمراں سیاسی اتحاد کے 48 ممبر سینیٹ میں ہیں جبکہ کل نشستیں 104 ہوتی ہیں، نومنتخب سینیٹر اسحٰق ڈار کی عدم موجودگی سے مسلم لیگ (ن) کے 32 سینیٹرز بنتے ہیں، پانچ سینیٹرز پختونخواملی عوامی پارٹی (پی کے ایم اے پی) اور پانچ ہی سینیٹرز نیشنل پارٹی (این پی)، چار سینیٹرز جمیعت علمائے اسلام (ف) جبکہ ایک سینیٹر مسلم لیگ (ف) سے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صادق سنجرانی چیئرمین، سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے دعویٰ کیا کہ جماعت اسلامی (جے آئی) کے دو، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی ایم) اور وفاقی کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) سے ایک ایک اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سے ایک سینیٹر کو ملا کر کل ووٹ کی تعداد 53 بنتی ہے، جنہوں نے مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

انہوں نے اقرار کیا کہ امیدوار کا نام دیر سے اعلان کرنے کے باعث مسلم لیگ (ن) کے خلاف پروپیگنڈا سے منفی اثرات پیدا ہوئے اور پارٹی کے قائد نواز شریف کو سینیٹ انتخابات سے ایک روز قبل لاہور آنے کے بجائے اسلام آباد میں بیٹھ کر سینیٹ انتخابات سے متعلق امور پر نظر رکھنی چاہیے تھی۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے شبہہ ظاہر کیا کہ جمیعت علمائے اسلام کے چار سینیٹرز اور فاٹا کے سینیٹرز نے مخالف جماعت کو ووٹ دیئے۔

انہوں نے بتایا کہ جے یو آئی (ف) ڈپٹی چیئرمین کے لیے اپنے امیدوار کو نامزد کرانا چاہتی تھی لیکن پی کے ایم اے کے مقابلے میں ہار گئی، جس کے بعد لگتا ہے کہ جے یو آئی (ف) کی دلچسپی انتخابی عمل میں نہیں رہی اور ٹھیک اسی وقت جے یو آئی (ف) نے مسلم لیگ (ن) کے خلاف ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات کے دوران جب جے یو آئی (ف) کے سینیٹرز کے نام پکارے گئے تھے وہ موجود نہیں تھے جس پر خیال کیا گیا کہ وہ بعد میں آکر ووٹ ڈالیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔

مزید پڑھیں: چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا سیاسی سفر

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے مزید شبہہ ظاہر کیا کہ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی سینیٹرز کلثوم پروین نے اپوزیشن جماعت کے حمایتی یافتہ امیدوار محمد صادق سنجرانی اور سلیم مانڈوی والا کو ووٹ ڈالا۔

ان کے مطابق اس امر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ فاٹا سینیٹرز نے مخالف جماعت کو ووٹ دیئے، کلثوم پروین نجی چینل پر کہہ چکی ہیں کہ انہوں نے دوسرا ووٹ سلیم مانڈوی والا کو دیا۔

واضح رہے کہ کلثوم پروین 2009 سے سینیٹر ہیں اور ماضی میں بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی (بی این پی اے) کی رہنما تھیں بعدازاں مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے کلثوم پروین کو سینیٹر شپ کا ٹکٹ تفویض کیا۔

حکمراں جماعت کے رہنما نے بتایا کہ پارٹی قیادت نے نیشنل پارٹی کے صدر حاصل بزنجو کو سینیٹ چیئرمین کے لیے منتخب کیا لیکن آخری لمحات میں فیصلہ تبدیل کردیا گیا کیونکہ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے چیف اختر مینگل نے واضح بتایا دیا کہ ان کی پارٹی حاصل بزنجو کو ووٹ نہیں دے گی۔

ذرائع نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) میں موجود ایک گروپ نے پارٹی قیادت سے مطالبہ کیا ہے کہ سینیٹ انتخابات میں دھوکا دینے والے سینیٹرز کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے انکوائری کرائی جائے جس کے باعث حکمراں جماعت کو انتہائی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔


یہ خبر 13 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024