• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

جماعت الدعوۃ پر ’پابندی‘ لگانے والا آرڈیننس عدالت میں چیلنج

شائع March 10, 2018

اسلام آباد: جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید نے اپنی جماعت پر پابندی لگانے والے صدارتی آرڈیننس کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فروری 2018 میں صدرِ مملکت ممنون حسین نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے تحت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی جانب سے دہشت گرد قرار دیئے جانے والی کالعدم تنظیموں اور دہشت گردوں کو پاکستان میں بھی قابل گرفت قرار دے دیا گیا۔

مزید پڑھیں: ‘جماعت الدعوۃ کے تمام اثاثے حکومتی تحویل میں نہیں‘

اس ترمیم کے تحت حافظ سعید سے تعلق رکھنے والی جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو کالعدم گروپ قرار دیا گیا تھا۔

حافظ سعید کی جانب سے صدارتی آرڈیننس کو چیلنج کیے جانے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے صدر کے پرنسپل سیکریٹری اور سیکریٹری قانون، کابینہ ڈویژن اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو نوٹسز جاری کردیے۔

انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے آرڈیننس میں دفعہ 11 بی اور 11 ای ای میں ترمیم کی گئی، جس میں 11بی میں کالعدم گروپوں کے ضوابط جبکہ 11 ای ای میں افراد کی فہرست کی وضاحت کی گئی تھی۔

حافظ سعید کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 2002 میں کالعدم لشکر طیبہ سے تمام تعلقات ختم کرکے جماعت الدعوۃ قائم کی گئی لیکن بھارت کی جانب جماعت الدعوۃ کا تعلق مسلسل کالعدم تنظیموں سے جوڑا جارہا ہے۔

درخواست گزار کی جانب سے کہا گیا کہ بھارتی دباؤ کے باعث 2009 اور 2017 میں انہیں نظر بند کیا گیا اور اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی جانب سے جماعت الدعوۃ کے خلاف ایک قرارداد بھی پاس کی گئی جس کے بعد حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی تنظیم کو واچ لسٹ میں ڈال دیا گیا۔

امیر جماعت الدعوۃ کی جانب سے ان کی جماعت کے خلاف جاری ہونے والے آرڈیننس کو پاکستان کی سالمیت کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان ایک خودمختار ملک ہے لیکن اس آرڈیننس کے ذریعے اس کی خودمختاری خطرے میں پڑ گئی۔

حافظ سعید کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ اس آرڈیننس کا نفاذ اور سیکشن 11 ای ای کا اضافہ نہ صرف خودمختاری کے خلاف ہے بلکہ یہ آئین پاکستان میں موجود بنیادی حقوق کے بھی متضاد ہے، لہٰذا کوئی بھی ایسا قانون جو آئینی شقوں کے خلاف ہو اسے ختم کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: جماعت الدعوۃ کے مدارس، صحت مراکز کا انتظام حکومت نے سنبھال لیا

درخواست میں یہ موقف بھی اختیار کیا گیا کہ کوئی بھی ایسا قانون جو آئین سے متصادم ہو اسے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔

حافظ سعید کی جانب سے عدالت سے درخواست کی گئی کہ آئین سے متصادم ہو کر انسداد دہشتگردی ایکٹ کی دفعہ 11 بی اور 11 ای ای میں ترمیم کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔

بعد ازاں جسٹس عامر فاروق کی جانب سے اس درخواست پر ابتدائی سماعت کے بعد فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت مارچ کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024