چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کیلئے سیاسی جماعتوں کے رابطوں میں تیزی
اسلام آباد: سینیٹ انتخابات میں اکثریتی جماعت بننے کے بعد جہاں پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ لانے کی کوششوں میں مصروف ہے، وہیں اپوزیشن جماعتیں خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے بھی رابطے تیز کردیئے گئے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے لیے دیا گیا رضا ربانی کا نام پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی جانب سے مسترد کیے جانے کے بعد دونوں جماعتوں کی اپنا امیدوار لانے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم بلوچستان ہاؤس چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے کی جانے والی کوششوں کا مرکز بنا رہا اور صوبے سے منتخب 6 آزاد سینیٹرز نے وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ جان محمد جمالی کے ہمراہ بلوچستان ہاؤس میں مختلف وفود سے ملاقات کیں۔
سب سے پہلے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی سربراہی میں وفد نے بلوچستان سے آئے مہمانوں سے ملاقات کی اور بعد ازاں آصف علی زرداری نے آزاد امیدواروں کے گروپ سے ملاقات کی اور انہیں سینیٹ کے لیے ان کی جماعت کی حمایت کرنے کے لیے رضا مند کرنے کی کوشش کی۔
مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات میں کب، کیا اور کیسے ہوتا ہے؟
بعدازاں آصف علی زرداری نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ہمراہ صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی پر الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ رضا ربانی نے تین سال میں نواز شریف کے غیر آئینی اقدامات پر کوئی مزاحمت نہیں کی اور کیونکہ وہ نواز شریف کے اتنے قریب تھے۔
رضا ربانی کو نامزد نہ کرنے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں آصف زرداری نے کہا کہ ’میں اپنے چیئرمین کو بدنام نہیں کرنا چاہتا‘۔
پی پی پی کے شریک چیئرمین نے کہا کہ رضا ربانی نے آئین کی 18 ویں ترمیم کے معاملے پر پارٹی کے خدشات اور تحفظات دور کرنے کے لیے بھی کوئی اقدام نہیں اٹھائے۔
اس موقع پر آصف زرداری نے دعویٰ کیا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے چیئرمین سینیٹ کی نامزدگی کے لیے حتمی اختیار انہیں دے دیا ہے اور وہ انہیں مایوس نہیں کریں گے۔
صحافیوں سے گفتگو کے دوران پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کےلیے مطلوبہ تعداد میں ارکان ہونے کا دعویٰ بھی کیا، تاہم انہوں نے پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان ممکنہ تعاون کے سوال کا جواب نہیں دیا۔
اس موقع پر صحافی کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے لیے سلیم مانڈوی والا کی نامزدگی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر آصف زرداری کی جانب سے مسکراتے ہوئے جواب دیا گیا کہ ’ انشاء اللہ‘۔
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بلوچستان کے ارکان کی وفاقی دارالحکومت میں موجودگی کی پرواہ کیے گئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں اہم اجلاس منعقد کیا اور اس میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے حوالے سے نئی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا۔
اس اجلاس کے بعد موسمیاتی تبدیلی کے وزیر اور (ن) لیگ کے سیکریٹری اطلاعات مشاہد اللہ خان دورہ کراچی کے لیے روانہ ہوگئے، جہاں وہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگارا سے بات چیت کریں گے اور انہیں حمایت کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ مشاہد اللہ خان ایم کیو ایم کے دونوں گروپوں پی آئی بی اور بہادرآباد کے سربراہوں ڈاکٹر فاروق ستار اور ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سے الگ الگ ملاقات کریں گے جبکہ جمعہ کو پیر پگارا سے بھی ملاقات کریں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ مشاہد اللہ خان کا گورنر سندھ محمد زبیر اور سینیٹر سلیم ضیاء سے بھی ملاقات کا امکان ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ دوسری جانب راجا ظفر الحق، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور مشاہد حسین سید پر مشتمل مسلم لیگ (ن) کے وفد نے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے چیئرمین محمود خان اچکزئی اور نیشنل پارٹی (این پی) کے صدر حاصل بزنجو سے ملاقات کیں۔
مسلم لیگ (ن) کے وفد نے تمام اتحادی جماعتوں کے سربراہوں کو نواز شریف کے ساتھ حتمی ملاقات کے لیے ہفتے کو اسلام آباد میں مدعو کیا۔
اس حوالے سے ذرائع کا کہنا تھا کہ اس ملاقات سے قبل ہی سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان جاتی امراء میں ملاقات کا امکان ہے، جہاں مولانا فضل الرحمٰن آصف زرداری سے ملاقات کے حوالے سے انہیں آگاہ کریں گے۔
چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے حوالے سے ایک اور پیش رفت کے بارے میں ذرائع کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی جانب سے عوامی نیشنل پارٹی کے ایم این اے اور سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا امیر حیدر ہوتی سے ملاقات کی گئی اور سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس ملاقات میں موجود ایک مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے رضا ربانی کے نام کو مسترد کیے جانے کے بعد ایک سینیٹر رکھنے والی اے این پی بھی حکمران جماعت کی حمایت کی خواہش رکھتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات: سیاسی جماعتوں کا ووٹ کی ‘خریداری’ کی تحقیقات کا مطالبہ
اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کو بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی اور جماعت اسلامی کے 2 سینیٹرز کی حمایت بھی حاصل ہونے کا امکان ہے۔
چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے جاری باگ دوڑ میں بلوچستان کے آزاد گروپوں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ جماعت نے ان سے رابطے کیے تھے، تاہم قیادت کی جانب سے انہیں زیادہ اہمیت نہیں دی گئی کیونکہ سینیٹ میں ہماری جماعت مطلوبہ تعداد کے ساتھ سر فہرست ہے۔
علاوہ ازیں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے اپنے 12 سینیٹرز کو وزیر اعلیٰ بلوچستان کے حوالے کرنے کا اعلان گیا گیا اور انہیں یہ اختیار دیا کہ وہ دیگر جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کریں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اگلا چیئرمین سینیٹ بلوچستان سے دیکھنا چاہتی ہے۔
اس موقع پر وزیر اعلیٰ بلوچستان کی جانب سے عمران خان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ آصف علی زرداری کو منانے کی کوشش کریں گے کہ وہ اگلا چیئرمین سینیٹ بلوچستان سے نامزد کریں۔
بعد ازاں اس حوالے سے ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی اس حکمت عملی کا اصل مقصد مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو روکنا ہے۔
یہ خبر 09 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی