شریف خاندان اور اسحٰق ڈار کے خلاف نیب ریفرنسز کے ٹرائل میں توسیع
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف زیر سماعت نیب ریفرنسز کی ٹرائل کی مدت میں 2 ماہ جبکہ اسحٰق ڈار کے خلاف 3 ماہ کی توسیع کردی۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما پیپرز کیس کے حتمی فیصلے کی روشنی میں نیب ریفرنسز کے تحت ٹرائل کو مکمل کرنے کے لیے 6 ماہ کا وقت دیا گیا تھا، جو رواں ماہ 13 مارچ کو ختم ہونے والا ہے جبکہ اسی روز احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی مدتِ ملازمت بھی پوری ہونے والی ہے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ٹرائل کی مدت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران نیب کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران نیب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اسحٰق ڈار مفرور ہیں لہٰذا ان کے خلاف ریفرنس کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔
مزید پڑھیں: شریف خاندان کے ٹرائل کی مدت میں توسیع کی درخواست جمع ہونے کا امکان
جس پرعدالت کے معزز جج نے ریمارکس دیئے کہ مفرور ملزم سینیٹر بن گیا، کیا الیکشن کمیشن کو نہیں پتہ تھا کہ وہ عدالتی مفرور ہیں؟ جس پر نیب کے وکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ان کے کاغذات مسترد کیے تھے لیکن عدالت نے انہیں سینیٹر بننے کی اجازت دی۔
سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ کیا جج صاحب کو نہیں پتہ تھا کہ اسحٰق ڈار عدالتی مفرور ہیں؟ اور کیا شریف خاندان کی جانب سے ٹرائل کو طول دینے کے لیے تاخیری حربے استعمال کیے گئے؟
جس پر وکیل نیب نے بتایا کہ کسی فریق نے بھی ٹرائل کو طول دینے کے لیے تاخیری حربے استعمال نہیں کیے۔
بعد ازاں عدالت نے شریف خاندان اور اسحٰق ڈار کے ٹرائل کی مدت میں توسیع کا حکم دیتے ہوئے سماعت نمٹا دی۔
یاد رہے کہ پاناما پیپرز کیس کے فیصلے کے بعد عدالتی حکم پر نیب نے نواز شریف اور ان کے بچوں حسن نواز، حسین نواز اور مریم نواز کے ساتھ ساتھ داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز، ہلز میٹل اسٹیبلشمنٹ اور لندن میں ایون فیلڈ فلیٹس سے متعلق 3 ریفرنسز دائر کیے تھے۔
اس کے ساتھ سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے پر بھی ایک ریفرنس دائر کیا گیا تھا، تاہم اکتوبر 2017 سے اسحٰق ڈٓار لندن میں مقیم ہیں اور اس ریفرنس کی سماعتوں سے غیر حاضر ہیں جبکہ عدالت کی جانب سے انہیں اشتہاری بھی قرار دیا جاچکا ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ ان ریفرنسز کے علاوہ نیب کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے تھے،جن کی سماعتیں احتساب عدالت اسلام آباد میں جاری ہیں۔
احتساب عدالت کے جج کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ
دوسری جانب احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر سیکریٹری قانون سے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کی توسیع کا نوٹیفکیشن 12 مارچ سے قبل جاری ہوجائے گا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر لیے گئے نوٹس کی سماعت کی، سماعت کے دوران سرکاری وکیل رانا وقار اور سیکریٹری قانون پیش ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد بار کونسل جج محمد بشیر کی مدت ملازمت میں توسیع کا مخالف
سماعت کے دوران چیف جسٹس اور سیکریٹری قانون کے درمیان مکالمہ ہوا، چیف جسٹس نے کہا کہ جج محمد بشیر کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے 24 فروری کو وزارت قانون کو مراسلہ لکھا تھا اور 26 فروری کو مراسلہ موصول ہونے کے بعد اب تک کیا کارروائی کی گئی؟
جس پر سیکریٹری قانون نے کہا کہ جج محمد بشیر کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سمری وزر اعظم سیکریٹریٹ بھجوادی گئی ہے جبکہ وزیر قانون پہلے ہی اس سمری کو منظور کرچکے ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جب میں سیکریٹری قانون تھا تو اس طرح کی اہم فائل خود لے کر جایا کرتا تھا، آپ مجھے یہ بتائیں کہ محمد بشیر کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سمری کب تک منظور ہو جائے گی۔
چیف جسٹس کے سوال پر سیکریٹری قانون نے بتایا کہ 2 سے 3 روز میں سمری منظور ہوجائے گی اور 12 مارچ سے قبل ان کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن جاری ہوجائے گا۔
بعد ازاں سیکریٹری قانون کی جانب سے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کے بعد سماعت 10 مارچ تک ملتوی کردی گئی۔
واضح رہے کہ احتساب عدالت کے جج اور نیب ریفرنسز کی سماعت کرنے والے جج محمد بشیر کی مدت ملازمت آئندہ ہفتے مکمل ہورہی ہے۔
یاد رہے کہ جج محمد بشیر کو پہلی مرتبہ 2012 میں احتساب عدالت میں تعینات کیا گیا اور دوسری مرتبہ 2015 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی سفارش پر اگلے تین برس کی توسیع دی جو آئندہ ہفتے میں اختتام پذیر ہو جائے گی۔
تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نو منتخب صدر سید جاوید اکبر نے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی مدت ملازمت میں تیسری مرتبہ توسیع کے معاملے پر سخت تنقید کی اور اقدام کو آرڈیننس کے منافی قرار دیا تھا۔