سینیٹ کمیٹی کی توہین مذہب کے قانون میں تبدیلی کی سفارش
اسلام آباد: سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے توہین مذہب کے قانون میں تبدیلی کی سفارشات جائزے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوا دیں۔
سینیٹر نسرین جلیل کی زیر صدارت سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس ہوا، جس میں توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے سے متعلق معاملے پر غور کیا گیا۔
اس موقع پر کمیٹی نے توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سفارشات تیار کیں۔
مزید پڑھیں: ’توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والا دوہرے جرم کا مرتکب‘
کمیٹی کی سفارشات کے مطابق توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانے والے کو وہی سزا دی جائے جو توہین مذہب کے مجرم کے لیے ہے اور الزام لگانے والے پر لازم ہوگا کہ وہ اپنے ساتھ دو گواہ ساتھ لائے جبکہ دو گواہ ساتھ لانے کی صورت میں ایف آئی آر درج کی جائے گی۔
اجلاس کے دوران پی پی پی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ توہین مذہب کے قانون میں کوئی ترمیم نہیں کی جا رہی تاہم پاکستان میں توہین مذہب کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے کا وقت آگیا ہے، توہین مذہب کا غلط استعمال کرتے ہوئے لوگوں کی جائیدادوں پر قبضے کئے گئے۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کمیٹی اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو مانتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والوں کے خلاف قانون بن گیا، جسٹس شوکت عزیز
خیال رہے کہ 16 فروری 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 کا ترمیمی مسودہ پیش کیا گیا تھا جس کے مطابق توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانے والے اور مرتکب ملزم کو ایک ہی سزا ملے گی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے مقننہ سے موجودہ قوانین میں ترمیم کرنے کی بھی سفارش کی تھی تاکہ گستاخی کے جھوٹے الزامات لگانے والوں کو بھی گستاخی کرنے والے کے برابر سزا دی جاسکے۔
توہین مذہب قانون میں تبدیلی کی مخالفت
سینیٹر مفتی عبدالستار نے کمیٹی کی جانب سے دی جانے والی سفارشات کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ توہین مذہب کے قانون پر بات نہ کی جائے اور ساتھ ہی الزام لگایا کہ توہین مذہب کے قانون کے خلاف سازش کی جا رہی ہے۔
مفتی عبدالستار نے سوال کیا کہ کیا صرف توہین مذہب کا غلط استعمال ہو رہا ہے؟ کیا ملک میں قتل سے متعلق قانون کا غلط استعمال نہیں ہو رہا؟
فوجی عدالتوں میں توسیح کا معاملہ
علاوہ ازیں کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں فوجی عدالتوں میں توسیع کا معاملہ زیر غور آیا جس میں سینیٹر فرحت اللہ بابر نے فوجی عدالتوں میں توسیح کی مخالفت کی۔
انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں دو مرتبہ توسیح کی گئی اور ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہو تو مزید توسیع نہ دی جائے۔
پی پی پی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کا کہنا تھا کہ کمیٹی یہ سفارش کریں کہ فوجی عدالتوں کو مدت ختم ہونے کے بعد دوبارہ توسیع نہ دی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں میں توسیع کا بل سینیٹ سے بھی منظور
انہوں نے کہا کہ رحم کی اپیل کو اسٹریم لائین میں لانے کے لیے فوجی عدالتوں میں توسیع نہ دینا لازم ہے۔
جس کے بعد کمیٹی نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع نہ کرنے کی سفارش کرتے ہوئے توہین مذہب کے قانون میں تبدیلی سے متعلق اپنی سفارشات جائزے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوا دیں۔
فوجی عدالتوں کا قیام 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر حملے کے بعد آئین میں 21 ویں ترمیم کرکے عمل میں لایا گیا تھا۔
28ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد ملک بھر میں فوجی عدالتوں کی مدت میں مزید 2 سال کی توسیع ہوجائے گی جس کی مدت رواں برس 7 جنوری کو ختم ہوگئی تھی۔
28 مارچ 2018 کو فوجی عدالتوں میں دو سالہ توسیع یقینی بنانے کے لیے آئین میں 28ویں ترمیم کا بل سینیٹ سے بھی منظوری کرالیا گیا تھا، جس کے بعد 6 جنوری 2019 تک کے لیے فوجی عدالتیں بحال ہوجائیں کردی گئیں تھیں۔
سانحہ یوحنا آباد
اجلاس میں لاہور میں پیش آنے والے سانحہ یوحنا آباد کے بعد گرفتار کئے گئے افراد کے معاملے پر بھی غور کیا گیا۔
کمیٹی برائے انسانی حقوق نے سانحہ یوحنا آباد کے بعد گرفتار افراد کے کیسز پر نظرثانی کی سفارش کی، کمیٹی کی جانب سے کی جانے والی دیگر سفارشات میں گرفتار افراد پر دہشت گردی کی دفعات ختم کر کے سول عدالتوں میں کیسز چلانے کی تجویز دی گئی۔
مزید پڑھیں: سانحہ یوحنا آباد: 20 ملزمان پر فرد جرم عائد
کمیٹی کا کہنا تھا کہ جو لوگ بے گناہ ہیں ان پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت کیسز درج کرنا ناانصافی ہے۔
اس موقع پر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ تین سال قبل یوحنا آباد میں دو چرچز پر حملے ہوئے، حملے کے نتیجے میں کرسچن برادری کے 150 افراد مارے گئے، انہوں نے کہا کہ ان افراد کی ہلاکت کے بعد مظاہرہ کیا گیا جو ہر ایک کا بنیادی حق ہے تاہم مظاہرہ کرنے والے افراد پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت کیسز درج کئے گئے۔
فرحت اللہ بابر نے مزید کہا کہ تین سال سے وہ لوگ جیلوں میں ہیں۔