اسلام آباد ہائیکورٹ: الیکشن ایکٹ میں ترمیم پر بحث سے متعلق سینیٹ کی کارروائی کا ریکارڈ طلب
اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم پر بحث کے حوالے سے سینیٹ کی کارروائی کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو 6 مارچ تک ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے الیکشن ایکٹ میں ختم نبوت کے حلف نامے میں ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
عدالت نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم پر بحث کے حوالے سے سینیٹ کی کارروائی کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو 6 مارچ تک ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
سیکریٹری سینیٹ کو سربمہر لفافے میں ریکارڈ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ دیکھنا چاہتے ہیں کس نے حق میں ووٹ دیا اور کس نے مخالفت کی۔
مزید پڑھیں: ’عدالت حکومت کو قانون سازی کرنے کی ہدایات جاری کر سکتی ہے‘
انہوں نے کہا کہ ریکارڈ صرف اپنی معلومات کے لیے طلب کیا ہے، مقننہ پر اثرانداز ہونے کے لیے نہیں۔
علاوہ ازیں ڈاکٹر اسلم خاکی ایڈووکیٹ مذکورہ کیس میں عدالتی معاونت کے لیے عدالت عالیہ میں پیش ہوئے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ عوامی مفاد میں حاکم وقت کوئی بھی اقدام اٹھا سکتا ہے اور عدالتی معاون وکیل نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کے بطور ہیڈ آف اسٹیٹ اقدامات کے حوالے پیش کئے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ 1998 کی مردم شماری میں احمدیوں کی تعداد دو لاکھ 84 ہزار سامنے آئی جبکہ یہ تعداد نادرا کے 2018 کے ریکارڈ میں ایک لاکھ 67 ہزار سے زائد ہے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ 2018 کی مردم شماری کا ریکارڈ ابھی سامنے نہیں آیا، لیکن مختلف اعدادوشمار سامنے آنا ریاست کے لیے چیلنج ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ میں راجا ظفرالحق کمیٹی کی رپورٹ پیش
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ پانچ برس میں 10 ہزار سے زائد افراد نے شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ تبدیل کرایا، 18 سے 30 سال کے 6 ہزار سے زائد افراد جبکہ کچھ نے 60 برس عمر کے بعد مذہب کا خانہ تبدیل کرایا۔
اسلم خاکی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ریاست کا اختیار ہے کہ دوہرے مفادات لینے والو کو روکنے کے لیے قانون سازی کرے، اقلیتوں کا مسلمانوں کی نشستوں پر آنے سے اگر استحقاق مجروح ہورہا ہو تو مسئلہ ہے اگر نہ ہورہا ہو تو کوئی ایشو نہیں۔
جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ ریاست اور آئین سے وفاداری پہلے ہے بنیادی حقوق بعد میں آتے ہیں اور ساتھ ہی ڈاکٹر اسلم خاکی کو دلائل تحریری طور پر بھی جمع کرانے کی ہدایت کردی۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے مذکورہ کیس کی سماعت 6 مارچ 2018 تک کے لیے ملتوی کردی۔
2 مارچ 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے عدالت عالیہ کو بتایا تھا کہ آئینی عدالت حکومت کو قانون سازی کرنے کی ہدایات جاری کر سکتی ہے۔
یاد رہے کہ عدالت عالیہ نے شیخ اکرم ایڈووکیٹ کے علاوہ علامہ ساجد الرحمان، محسن نقوی، مولانا اللہ وسایا اور پروفیسر حسن مدنی کو بھی عدالت کی معاونت کے لیے طلب کیا تھا۔
مزید پڑھیں: ختم نبوت کا حلف نامہ:راجہ ظفرالحق کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آگئی
20 فروری 2018 کو حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں الیکشن ایکٹ میں ختم نبوت سے متعلق ترمیم پر راجا ظفر الحق کمیٹی کی سربمہر رپورٹ عدالت میں پیش کی تھی۔
اس سماعت میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ احمدیوں کو پاکستان میں رہنا ہے تو شہری بن کر رہیں اسلام پر نقب نہ لگائیں، میں کوئی فتوٰی نہیں دے رہا پاکستان کا آئین احمدیوں کو مسلمان نہیں مانتا جبکہ ختم نبوت کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔
بعد ازاں عدالت نے ریمارکس دیئے تھے کہ ختم نبوت سے متعلق درخواست پر روزانہ کی بنیاد پر سماعت کریں گے۔
الیکشن ایکٹ 2017
خیال رہے کہ 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مسلم لیگ (ن) کو پارٹی کا نیا صدر منتخب کرکے کمیشن کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کو نیا پارٹی صدر منتخب کرنے کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے تحت نااہل شخص پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتا۔
نواز شریف کی بطور پارٹی صدر نااہلی کے بعد حکمراں جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما سینیٹر سردار یعقوب کو پارٹی کا قائم مقام صدر منتخب کیا گیا تھا۔
حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کو نواز شریف کو دوبارہ پارٹی کا صدر منتخب کرنے کے سلسلے میں ایک رکاوٹ کا سامنا تھا، جس کے لیے انتخابی اصلاحاتی بل 2017 قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا، جس کے تحت نااہل شخص بھی پارٹی کا صدر منتخب ہوسکتا ہے۔
قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد اس بل کو سینیٹ میں پیش کیا گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اعتزاز احسن نے ترمیم پیش کی کہ جو شخص اسمبلی کا رکن بننے کا اہل نہ ہو وہ پارٹی کا سربراہ بھی نہیں بن سکتا جس کے بعد بل پر ووٹنگ ہوئی۔
حکومت نے محض ایک ووٹ کے فرق سے الیکشن بل کی شق 203 میں ترمیم مسترد کرانے میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کی پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار کردی۔
مذکورہ بل کی منظوری کے بعد آرٹیکل 62 اور 63 کی وجہ سے نااہل ہونے والا شخص بھی سیاسی جماعت کا سربراہ بننے کا اہل ہوگا۔
دوسری جانب سابق وزیر اعظم نواز شریف کو باآسانی مسلم لیگ (ن) کا دوبارہ صدر منتخب کرنے لیے پارٹی آئین میں بھی ترمیم کردی گئی اور مسلم لیگ (ن) کی مرکزی جنرل کونسل نے پارٹی آئین میں ترمیم کی منظوری دیتے ہوئے دفعہ 120 کو ختم کردیا، جس کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بلامقابلہ صدر منتخب ہوگئے تھے۔
نواز شریف کے پارٹی سربراہ بننے کو ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جس پر کچھ سماعتوں کے بعد عدالت عظمیٰ نے 21 فروری 2018 کو انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ سنایا تھا، جس کے نتیجے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف مسلم لیگ (ن) کی صدارت کے لیے بھی نااہل ہوگئے تھے۔
چیف جسٹس نے کیس کا مختصر فیصلہ پڑھ کر سناتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہ اترنے والا یا نااہل شخص پارٹی صدارت کا عہدہ نہیں رکھ سکتا جبکہ اس فیصلے کا اطلاق اس وقت سے ہوگا جب اسے نااہل قرار دیا گیا ہو۔
انہوں نے کہا تھا کہ آئین پاکستان میں درج ہے کہ حاکمیت اللہ کی ہے اور عوام کے منتخب نمائندے اللہ کی جانب سے دیا گیا اختیار امانت سمجھ کر استعمال کرنے کے پابند ہیں، کسی بھی سیاسی جماعت کا سربراہ بااختیار ہوتا ہے اور سیاسی جماعتیں ملک کی حکومت چلاتی ہیں، پارلیمنٹ کے امور چلانے کے لیے پارلیمنٹیرینز کا اعلیٰ اخلاق کا ہونا ضروری ہے، آئین پاکستان بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرتا ہے، ایسوسی ایشن یا پارٹی بنانا ہر شخص کا حق ہے، لیکن اس کے لیے اخلاقیات پر پورا اترنا بھی ضروری ہے۔
فیصلے میں نواز شریف کی نااہلی کے بعد بطور پارٹی صدر اٹھائے گئے تمام اقدامات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ نواز شریف فیصلے کے بعد جب سے پارٹی صدر بنے تب سے نااہل سمجھے جائیں گے۔
یاد رہے کہ اس فیصلے کے بعد نواز شریف کے بطور پارٹی صدر سینیٹ انتخابات کے امیدواروں کی نامزدگی بھی کالعدم ہوگئی تھی اور مسلم لیگ (ن) کے تمام امیدواروں کے ٹکٹ منسوخ ہوگئے تھے۔