سینیٹ انتخابات: ’عمران خان ووٹ نہیں ڈالیں گے‘
پاکستان تحریک اںصاف ( پی ٹی آئی) کے رہنما شفقت محمود نے کہا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف ذاتی مصروفیات کی وجہ سے سینیٹ انتخابات میں ووٹ نہیں ڈالیں گے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے ابھی کوئی معلومات نہیں اور اس بارے میں پولنگ ختم ہونے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔
انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے یہاں ایک ایسا نظام ہے کہ جو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ پیسے کہ زور پر ایوان میں اپنی جگہ بنائی جاسکے۔
سینیٹ کی 4 نشستیں جیتنے کی کوشش کر رہے ہیں، فاروق ستار
ادھر متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے سینیٹ انتخابات کے حوالے سے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی اختلافات کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ سندھ کے عوام کا ہم پر قرض ہے اور ہم انہیں مایوس نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے میں نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم سینیٹ کی 4 نشستیں نکالیں گے لیکن اب میں یہ کہتا ہوں کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ چاروں نشستیں جیت سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان گزشتہ چند روز سے آزمائش میں تھی لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ سینیٹ کے الیکشن ہورہے ہیں اور ہم عوام کو مایوس نہیں کریں گے۔
فاروق ستار نے کہا کہ ہمارے ایم پی اے پارٹی اور عوام کو جوابدہ ہیں اور میرا ضمیر مطمئن ہے اور میں نے تمام ایم پی ایز سے بات کی ہے اور ہم نے مل کر ہی سب کام کرنا ہے۔
مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات میں کب، کیا اور کیسے ہوتا ہے؟
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما کا کہنا تھا کہ پورے ملک میں سرداروں اور جاگیر داروں کی سیاست ہے لیکن ہم مل کر کام کرکے ہی ووٹ کا حق ادا کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان میں تنظیم کو چلانے کے حوالے سے اختلافات ہیں لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ہمارا آپس میں رابطہ ہے اور جہاں بھی اختلاف تھا اس کی نشاندہی کرلی ہے۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ میری ضد یا انا کسی بھی حوالے سے نہیں بلکہ میرا مسئلہ صرف بے اختیار اور با اختیار سربراہ کا ہے کیونکہ ان دونوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم بہادر آباد کے ساتھ اب تنظیمی مسئلہ ہے لیکن اسے بھی حل کرکے پارٹی کو پہلے سے زیادہ مضبوط کریں گے۔
’فاروق ستار نے کامران ٹیسوری کی تجوری ہضم کرلی ہے‘
ادھر فاروق ستار کی پریس کانفرنس کا جواب دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما اور وزیر اطلاعات سندھ ناصر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ اپنے انتشار کی وجہ سے آج اس حال پر پہنچی ہے اور ان کے اپنے کارکنان ان سے متفر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ روز آپس میں لڑتے ہیں، کبھی کسی کو رابطہ کمیٹی میں رکھتے ہیں کبھی نکال دیتے ہیں۔
ڈاکٹر ناصر حسین شاہ نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ فاروق ستار نے کامران ٹیسوری کی تجوری ہضم کرلی ہے اور موجودہ غیر یقینی صورتحال کا سبب متحدہ قومی موومنٹ ہے۔
’سینیٹ انتخابات میں پیپلز پارٹی سرپرائز دے گی‘
دوسری جانب پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی نے سندھ اسمبلی کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ شب ایم کیو ایم کی کچھ بہنوں نے ہمارے ساتھ ڈنر کیا اور ہماری حمایت کی ہے اور پیپلز پارٹی سینیٹ انتخابات میں سرپرائز دے گی۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی میں جلد اور بھی بھائی کھانے پر آنے والے ہیں اور ووٹوں کی گنتی کے بعد پتا چلے گا کہ کتنے بہن بھائی، ہمارے ساتھ ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی متحد ہے اور عوام دیکھ رہے ہیں کہ کس جماعت کے ٹکڑے ہورہے ہیں۔
منتخب اراکین کو خریدا جارہا ہے، ارباب غلام رحیم
ادھر اپوزیشن کے ایک اور رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ وہ سندھ میں 12 کی 12 نشستیں جیتے اور اس سلسلے میں منتخب اراکین کو خریدا جارہا ہے، ایسی صورتحال میں شفاف انتخبات کیسے ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف سیاست کے بے تاج بادشاہ ہیں، زعیم قادری
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ کے سارے ووٹ اکٹھے ہیں اور سینیٹ انتخابات میں وہ مظفر شاہ اور فروغ نسیم کو ووٹ دیں گے جبکہ ٹیکنو کریٹ کی نشستوں پر بھی ووٹ ایم کیو ایم پاکستان کو دیں گے۔
اپوزیشن کا حکومت پر دھاندلی کا الزام
دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے سینیٹ انتخابات میں حکومت پر دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے بیلٹ باکس چیک کرنے کا مطالبہ کردیا۔
پنجاب اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شعیب صدیقی نے کہا کہ رانا ثںاء اللہ کی قیادت میں حکومتی ارکان نے پولنگ بوتھ پر حملہ کیا اور ارکان اسمبلی بیلٹ پیپرز باہر لے گئے۔
پی ٹی آئی رہنما نے الزام لگایا کہ ایک ایم پی اے کو بیلٹ باکس میں خالی کاغذ ڈالتے دیکھا ہے اور اس سلسلے میں پریزائڈنگ افسر کو اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا لیکن ہماری شکایت پر کسی نے کان نہیں دھرا اور اگر بیلٹ باکس میں سے خالی پرچیاں نکلیں تو ان انتخابات کو کالعدم قرار دیا جائے۔
علاوہ ازیں سینیٹ انتخابات کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کو اپنے امیدواروں پر اعتبار نہیں، ارکان اسمبلی ڈپٹی سیکریٹری کو حلف دینے کو تیار نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی سے ہمارا 25 سال پرانا رشتہ ہے لیکن سینیٹ انتخابات میں ارکان کی تذلیل کی جاری ہے۔
سینیٹ انتخابات
خیال رہے کہ اسلام آباد اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) سمیت چاروں صوبوں میں 52 خالی سینیٹ نشستوں پر 133 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہورہا ہے۔
واضح رہے کہ پنجاب کی 12 نشستوں پر 20 امیدوار، سندھ کی 12 نشستوں پر 33 امیدوار، خیبرپختونخوا کی 11 نشستوں پر 26 امیدوار، بلوچستان کی 11 نشستوں پر 25 امیدوار، فاٹا کی4 نشستوں پر 25 امیدوار اور وفاق سے 2 نشستوں پر 5 امیدوارحصہ لے رہے ہیں.
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے امن و امان اور شفاف انتخابی عمل برقرار رکھنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے ہیں۔
ایک روز قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ انتخابات کے حوالے سے اراکینِ اسمبلی کے لیے ضابطہ اخلاق جاری کیا تھا جس کے مطابق انتخابات میں شرکت کے لیے قومی وصوبائی اسمبلی کے اراکین کو اسمبلی سیکریٹریٹ کا کارڈ ساتھ لانا ہوگا جبکہ موبائل فون کو پولنگ اسٹیشن لانے پر مکمل پابندی ہوگی۔
اس کے علاوہ بیلٹ پیپر اور ووٹ کی رازداری کو یقینی بنانا ہوگا جبکہ بیلٹ پیپر کو خراب کرنے، جعلی بیلٹ پیپر استعمال کرنے پر کارروائی ہوگی اور بیلٹ پیپر پولنگ اسٹیشن سے باہر لے جانے پر بھی مکمل پابندی ہوگی۔
الیکشن کمیشن کے مطابق غیر متعلقہ شخص کو بیلٹ پیپر دینے پر آر او فوری سزا سنا سکتا ہے جبکہ ریٹرننگ افسر کو بیلٹ پیپر منسوخ کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوگا اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ افسر کو مجسٹریٹ درجہ اول کے تحت اختیارات بھی تفویض کردیئے۔
خیال رہے کہ ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے اجزائے ترکیبی کچھ یوں ہیں کہ 104 ارکان کے اس ایوان میں چاروں صوبوں سے کل 23 ارکان ہیں۔ جن میں سے 14 عمومی ارکان، 4 خواتین، 4 ٹیکنوکریٹ اور 1 اقلیتی رکن ہے۔ فاٹا سے 8 عمومی ارکان سینیٹ کا حصہ ہیں۔ اسلام آباد سے کل 4 ارکان ہیں جن میں سے 2 عمومی جبکہ ایک خاتون اور 1 ہی ٹیکنوکریٹ رکن ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات کا گورکھ دھندا! کون فائدے اور کون نقصان میں؟
سینیٹرز کی آئینی مدت 6 برس ہے اور ہر 3 برس بعد سینیٹ کے آدھے ارکان اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوتے ہیں اور آدھے ارکان نئے منتخب ہوکر آتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی سینیٹ کی آدھی یعنی 52 نشستوں پر انتخابات ہونے جارہے ہیں.