سینیٹ انتخابات: 52 نشستوں کیلئے پولنگ کا وقت ختم
**اسلام آباد: وفاق اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) سمیت چاروں صوبوں میں 52 خالی سینیٹ نشستوں پر 133 امیدواروں کے درمیان مقابلے کا وقت ختم ہوگیا۔
سینیٹ انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے امن و امان اور شفاف انتخابی عمل برقرار رکھنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے تھے۔**
واضح رہے کہ پنجاب کی 12 نشستوں پر 20 امیدوار، سندھ کی 12 نشستوں پر 33 امیدوار، خیبرپختونخوا کی 11 نشستوں پر 26 امیدوار، بلوچستان کی 11 نشستوں پر 25 امیدوار، فاٹا کی4 نشستوں پر 25 امیدوار اور وفاق سے 2 نشستوں پر 5 امیدوارحصہ لیا.
یہ پڑھیں: سینیٹ انتخابات: ’پارلیمنٹ کے باہر ایف سی اور رینجرز تعینات کی جائے گی‘
ای سی پی کی جانب سے رواں ماہ کی یکم کو اعلان کیا گیا تھا کہ کیا کہ سینیٹ انتخابات کے دوران صوبائی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر رینجرز اور فرنٹیئر کورپس (ایف سی) کے اہلکار سیکیورٹی کے فرائض انجام دیں گے اور سینیٹ انتخابات میں ریٹرنگ آفیسر کو فرسٹ کلاس میجسٹریٹ کے اختیارات تفویض ہوں گے جس کے بعد کسی بھی غیر قانونی عمل کی صورت میں وہ بیلٹ پیپر منسوخ کرسکتا ہے۔
ای سی پی کے مطابق انتخابی عمل بغیر کسی تعطل یا وقفے کے صبح 9 سے شام 4 بجے تک جاری رہے گا۔
اب تک کی صورتحال:
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے دوپہر 12 بجے قومی اسمبلی پہنچ جہاں حکمراں جماعت کے رہنماؤں نے ان سے رسمی ملاقات کیں۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے صوبائی اسمبلی میں پہلا ووٹ ڈال کر سینیٹ انتخابات کا آغاز کیا۔
اس موقعے پر ان کی درخواست پر محکمہ اطلاعات کرپشن کیس کے مبینہ ملزم سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن کو ووٹ ڈالنے کے لیے لایا گیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پنجاب اسمبلی میں سینیٹ انتخابات کے لیے دوبجے کے بعد ووٹ ڈالا۔
بلوچستان اسمبلی میں صوبائی وزیرذراعت سردار اسلم بزنجو نے پہلا ووٹ ڈالا۔
سیاسی جماعتوں کی کامیابیوں کے امکانات
صوبائی اسمبلیوں میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی کے تناظر میں محتاط اندازے سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) کے اراکین اسمبلی پارٹی پالیسی کے مطابق سینیٹ انتخابات میں ووٹ ڈالتے ہیں تو ایوانِ بالا میں مسلم لیگیوں کی 30 سے زائد نشستیں ہو سکتی ہیں۔
خیال رہے کہ ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے اجزائے ترکیبی کچھ یوں ہیں کہ 104 ارکان کے اس ایوان میں چاروں صوبوں سے کل 23 ارکان ہیں۔ جن میں سے 14 عمومی ارکان، 4 خواتین، 4 ٹیکنوکریٹ اور 1 اقلیتی رکن ہے۔ فاٹا سے 8 عمومی ارکان سینیٹ کا حصہ ہیں۔ اسلام آباد سے کل 4 ارکان ہیں جن میں سے 2 عمومی جبکہ ایک خاتون اور 1 ہی ٹیکنوکریٹ رکن ہے۔
سینیٹرز کی آئینی مدت 6 برس ہے اور ہر 3 برس بعد سینیٹ کے آدھے ارکان اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوتے ہیں اور آدھے ارکان نئے منتخب ہوکر آتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی سینیٹ کی آدھی یعنی 52 نشستوں پر انتخابات ہونے جارہے ہیں.
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات کا گورکھ دھندا! کون فائدے اور کون نقصان میں؟
تاہم پاکستان مسلم لیگ (ق)، پاکستان مسلم لیگ (ف) اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) سینیٹ سے نمائندگی کھو سکتے ہیں۔
ای سی پی کے مطابق سینیٹ انتخابات کے سلسلے میں پنجاب کے لیے 1600، سندھ کے لیے 800 بیلٹ پیپرز جبکہ خیبرپختونخوا کے لیے 600، بلوچستان300، اسلام آباد کے لیے 800 اور فاٹا کے لیے 50 بیلٹ پیپرز چھپوائے گئے ہیں۔
ایوانِ بالا کو سیاسی دوربین سے دیکھا جائے تو بلوچستان کے بارے میں کوئی بھی پیش گوئی قبل از وقت ہے تاہم مسلم لیگ (ن) پنجاب کی کل 12 نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکتی ہے کیونکہ پنجاب اسمبلی میں لیگی ایم پی ایز کی تعداد 310 ہے جبکہ باقی 30 ایم پی ایز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے ہیں۔
مزید پڑھیں: الیکشن کے بعد سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی طاقت کو خطرات لاحق
اسی طرح مسلم لیگ (ن) اسلام آباد کی ایک جنرل اور ایک ٹیکنوریٹ پر مشتمل سینیٹ کی نشست پر بھی کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے بارے میں پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ وہ خیبر پختونخوا کی 11 نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکتی ہے کیونکہ اسمبلی میں ان کے 61 ایم پی ایز ہیں اور جماعت اسلامی (جے آئی) کو ایک سینیٹ کی نشست مل سکتی ہے۔
ساتھ ہی خیبر پختونخوا سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور جمعیت علما اسلام (ف) ایک ایک سینیٹ کی نشست نکاسکتی ہیں تاہم عوامی نیشنل پارٹی اور قومی وطن پارٹی کے لیے ایک نشست پر حاصل کرنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ایوانِ بالا میں اِس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی 26 نشستیں ہیں۔ ان کے 18 سینیٹرز ریٹائر ہورہے ہیں جبکہ مجوزہ فارمولے کی روشنی میں پیپلز پارٹی کے بظاہر 8 نئے سینیٹرز ایوان کا حصہ بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔
متحدہ قومی مومنٹ کی 8 نشستیوں پر سے 4 سینیٹرز ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اگر ڈاکٹر فاروق ستار اور خالد مقبول صدیقی کے مابین ماحول ساز گار رہے تو بظاہر 4 نشستیں آنے کا امکان ہے۔
نئے سینیٹرز 12 مارچ کو حلف اٹھائیں گے۔