• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

’نااہل شخص کو بادشاہ گر بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘

شائع March 2, 2018 اپ ڈیٹ March 3, 2018

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، جس کے مطابق کوئی بھی نااہل شخص پارٹی صدارت کا عہدہ نہیں رکھ سکتا۔

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی جانب سے جاری کیا گیا یہ فیصلہ 51 صفحات پر مشتمل ہے اور اسے خود چیف جسٹس نے تحریر کیا ہے جبکہ اس پر معزز جج کے علاوہ دو دیگر ججز کے دستخط موجود ہیں۔

مزید پڑھیں: انتخابی اصلاحات کیس: نواز شریف پارٹی صدارت کیلئے نااہل قرار

تفصیلی فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 17 (ٹو) اور 62 ون ایف، 63 اور 63 اے کا حوالہ دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ نااہل فرد پر نااہلی کا اطلاق اس وقت سے ہوگا جس دن سے اسے نااہل قرار دیا گیا ہو، لہٰذا ایسی صورت میں نواز شریف کے بطور پارٹی سربراہ پارٹی امور کے لیے کیے گئے تمام اقدامات کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ مجلس شوریٰ کا بنیادی مقصد اسلام کے اصول کے مطابق کام کرنا ہے اور مجلس شوریٰ کے تمام ارکان کو اسلام کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے اور ایسا ہی فرد پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے۔

تفیصلے میں کہا گیا کہ مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں نشستوں کے اعتبار سے سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اور(ن) لیگ نے اکثریت کی بنیاد پر حکومت قائم کی۔

تفصیلی فیصلے کے مطابق پاناما سے متعلق دنیا بھر کے اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں، دنیا کے مختلف ملکوں کی شخصیات کی آف شور کمپنیاں سامنے آئیں، آف شور کمپنیوں سے متعلق اس وقت کے وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے بچوں کے نام بھی سامنے آئے۔

الیکشن ایکٹ 2017سے متعلق کیس کے جاری کردہ تفصیلی فیصلہ میں کہا گیا کہ دنیا بھر میں پاناما لیکس کی وجہ سے کئی عالمی رہنماؤں نے استعفے دیئے۔

تفصیلی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاناما فیصلے میں نواز شریف کو نااہل کیا گیا، نااہلی کے بعد نوازشریف پارٹی صدارت سے بھی فارغ ہوگئے، ایکٹ کی قومی اسمبلی سے منظوری اور صدارتی توثیق ایک ہی دن ہوئی جبکہ نواز شریف نے ازخود عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا۔

خیال رہے کہ 21 فروری 2018 کو سپریم کورٹ کی جانب سے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ سنایا تھا، جس کے نتیجے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف مسلم لیگ (ن) کی صدارت کے لیے بھی نااہل ہوگئے تھے۔

چیف جسٹس نے کیس کا مختصر فیصلہ پڑھ کر سناتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہ اترنے والا یا نااہل شخص پارٹی صدارت کا عہدہ نہیں رکھ سکتا جبکہ اس فیصلے کا اطلاق اس وقت سے ہوگا جب اسے نااہل قرار دیا گیا ہو۔

انہوں نے کہا تھا کہ آئین پاکستان میں درج ہے کہ حاکمیت اللہ کی ہے اور عوام کے منتخب نمائندے اللہ کی جانب سے دیا گیا اختیار امانت سمجھ کر استعمال کرنے کے پابند ہیں، کسی بھی سیاسی جماعت کا سربراہ بااختیار ہوتا ہے اور سیاسی جماعتیں ملک کی حکومت چلاتی ہیں، پارلیمنٹ کے امور چلانے کے لیے پارلیمنٹیرینز کا اعلیٰ اخلاق کا ہونا ضروری ہے، آئین پاکستان بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرتا ہے، ایسوسی ایشن یا پارٹی بنانا ہر شخص کا حق ہے، لیکن اس کے لیے اخلاقیات پر پورا اترنا بھی ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابی اصلاحات بل کی آئینی حیثیت سپریم کورٹ میں چیلنج

فیصلے میں نواز شریف کی نااہلی کے بعد بطور پارٹی صدر اٹھائے گئے تمام اقدامات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ نواز شریف فیصلے کے بعد جب سے پارٹی صدر بنے تب سے نااہل سمجھے جائیں گے۔

یاد رہے کہ اس فیصلے کے بعد نواز شریف کے بطور پارٹی صدر سینیٹ انتخابات کے امیدواروں کی نامزدگی بھی کالعدم ہوگئی تھی اور مسلم لیگ (ن) کے تمام امیدواروں کے ٹکٹ منسوخ ہوگئے تھے۔

کیس کا پس منظر

واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے پاناما پیپز کیس میں نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مسلم لیگ (ن) کو پارٹی کا نیا صدر منتخب کرکے کمیشن کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔

الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کو نیا پارٹی صدر منتخب کرنے کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے تحت نااہل شخص پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتا۔

نواز شریف کی بطور پارٹی صدر نااہلی کے بعد حکمراں جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما سینیٹر سردار یعقوب کو پارٹی کا قائم مقام صدر منتخب کیا گیا تھا۔

حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کو نواز شریف کو دوبارہ پارٹی کا صدر منتخب کرنے کے سلسلے میں ایک رکاوٹ کا سامنا تھا، جس کے لیے انتخابی اصلاحاتی بل 2017 قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا، جس کے تحت نااہل شخص بھی پارٹی کا صدر منتخب ہوسکتا ہے۔

قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد اس بل کو سینیٹ میں پیش کیا گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اعتزاز احسن نے ترمیم پیش کی کہ جو شخص اسمبلی کا رکن بننے کا اہل نہ ہو وہ پارٹی کا سربراہ بھی نہیں بن سکتا جس کے بعد بل پر ووٹنگ ہوئی۔

حکومت نے محض ایک ووٹ کے فرق سے الیکشن بل کی شق 203 میں ترمیم مسترد کرانے میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کی پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار کردی۔

مذکورہ بل کی منظوری کے بعد آرٹیکل 62 اور 63 کی وجہ سے نااہل ہونے والا شخص بھی سیاسی جماعت کا سربراہ بننے کا اہل ہوگا۔

دوسری جانب سابق وزیر اعظم نواز شریف کو باآسانی مسلم لیگ (ن) کا دوبارہ صدر منتخب کرنے لیے پارٹی آئین میں بھی ترمیم کی گئی تھی اور مسلم لیگ (ن) کی مرکزی جنرل کونسل نے پارٹی آئین میں ترمیم کی منظوری دیتے ہوئے دفعہ 120 کو ختم کردیا تھا، جس کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بلامقابلہ صدر منتخب ہوگئے تھے۔

بعد ازاں گزشتہ برس اکتوبر میں انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کی پارلیمنٹ سے منظوری کے خلاف سپریم کورٹ میں قانون دان ذوالفقار بھٹہ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت درخواست دائر کی گئی تھی۔

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا تھا کہ پارلیمنٹ کا منظور کردہ بل آئین کی روح سے متصادم ہے، کیونکہ اس کے تحت عدالت کی جانب سے نااہل قرار دیا گیا شخص پارٹی صدارت کے لیے اہل قرار پائے گا۔

6 نومبر 2017 کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا [الیکشن ریفارمز ایکٹ 2017 سپریم کورٹ میں چیلنج][3] کیا۔

22 نومبر کو چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کو چیلنج کرنے پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کو ختم کرتے ہوئے سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، شیخ رشید اور جمشید دستی سمیت 9 درخواست گزاروں نے ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

گزشتہ برس 22 دسمبر کو سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات بل کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024