• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

25 کروڑ برسوں سے زمین پر موجود مخلوق دریافت

شائع March 1, 2018
— فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
— فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

یقین کرنا شاید مشکل ہو مگر سائنسدانوں نے شارک مچھلی ایک ایسی قسم دریافت کرلی ہے جو کہ سمندروں میں 25 کروڑ سال پہلے سے موجود ہے مگر اسے اب پہلی بار ڈھونڈا گیا ہے۔

اٹلانٹک سکس گل نامی شارک کی یہ قسم سمندروں میں ڈائنا سار کے عہد سے بھی پہلے لگ بھگ 25 کروڑ سال پہلے سے اب تک سمندروں میں موجود ہے مگر اس کا انکشاف اب پہلی بار ہوا ہے۔

امریکی سائنسدانوں نے اس مچھلی کے ڈی این اے تجزیے سے دریافت کیا کہ یہ مچھلی دیگر شارک مچھلیوں سے مختلف ہے جو کہ بحرہند اور بحر اوقیانوس میں پائی جاتی ہیں۔

مزید پڑھیں : دنیا کی پہلی گرم خون والی مچھلی دریافت

فلوریڈا انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی کے محققین نے اس شارک کے ڈی این اے کا تجزیہ کرکے یہ دریافت کی۔

یہ شارک مچھلی چھ فٹ لمبی ہوسکتی ہے اور دیگر شارک مچھلیوں سے بہت چھوٹی ہوتی ہے جن کی لمبائی پندرہ فٹ یا اس سے زائد ہوسکتی ہے۔

ان کے منفرد آری جیسے نچلے دانت اور سکس گل سلیٹس کو دیکھ کر انہیں اٹلانٹک سکس گل شارک کا نام دیا گیا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ تجزیے سے ثابت ہوگیا ہے کہ نو دریافت شدہ شارک مچھلی دیگر نسلوں سے بالکل مختلف ہے حالانکہ دیکھنے میں یہ سب ایک جیسی ہی لگتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : اندھیرے میں جگمگانے والی شارک مچھلی دریافت

درحقیقت یہ زمین پر پائے جانے والی قدیم ترین مخلوقات میں سے ایک ہے اور سمندر کی تہہ یعنی ہزاروں فٹ نیچے پائی جاتی ہیں۔

اتنی گہرائی میں موجودگی کی وجہ سے ان کے حوالے سے تحقیق بہت بڑا چیلنج ہے۔

اس سے پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ سکس گل شارکس کی صرف دو اقسام بلنٹ نوز سکس گل شارک اور بگ آئی سکس گل موجود ہیں۔

تاہم اب محققین کا خیال تھا کہ اس شارک کی ایک تیسری قسم بھی ہے اور ڈی این اے کا تجزیہ کیا گیا تو انکشاف ہوا کہ یہ ان نسلوں سے مطابقت نہیں رکھتا جن کا تجزیہ پہلے ہوچکا ہے۔

محققین نے 1310 ڈی این اے بیس پیئرز کا تجزیہ کیا اور ان کا کہنا تھا کہ اس تجزیے سے ہمیں سمندر کی گہرائی میں تنوع کو سمجھنے میں مدد ملے گی، جس کے بارے میں ہم اب تک زیادہ نہیں جانتے۔

اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل مرین بائیوڈائیورسٹی میں شائع ہوئے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024