• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

پختونوں کے مسائل کو قومی میڈیا میں جگہ کیوں نہیں ملتی؟

شائع February 27, 2018
لکھاری ایک سماجی کارکن، محقق، اور ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم گروہ 'بولو بھی ' کے ڈائریکٹر ہیں۔
لکھاری ایک سماجی کارکن، محقق، اور ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم گروہ 'بولو بھی ' کے ڈائریکٹر ہیں۔

گزشتہ سال پختونوں سے متعلق اور پختون نوجوانوں کی زیرِ قیادت 2 اہم تحریکیں پاکستان میں سامنے آئی ہیں۔ ایک وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے خیبر پختونخواہ میں انضمام کی تحریک یا فاٹا نوجوان جرگہ ہے، اور دوسری جسے پختون لانگ مارچ بھی کہا جاتا ہے جو پختونوں کے حقوق کی خلاف ورزی، بالخصوص جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف ہے، جسے کراچی میں سندھ پولیس کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود کے قتل سے جلا ملی ہے۔

ان دونوں تحریکوں کی خصوصیات مشترک ہیں۔ یہ مکمل طور پر پُرامن ہیں، جن کی قیادت نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ اُس ریاست سے انصاف مانگ رہی ہیں جو بظاہر حقوق کی خلاف ورزی میں شامل ہے۔ ان احتجاج میں مختلف سیاسی وابستگیوں والے افراد بھی شامل ہیں اور یہ اپنی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا کا منظم استعمال کررہی ہیں۔

مگر بدقسمتی سے مرکزی دھارے کے میڈیا نے ان دونوں تحریکوں کو نہایت کم کوریج دی ہے۔ لیکن کیوں؟ اِس 'کیوں' کی 3 وجوہات ہوسکتی ہیں۔

پہلی وجہ

دونوں تحریکوں کے مطالبات ریاست کی سیکیورٹی پالیسیوں سے متعلق ہیں اور ان میں پختونوں سے متعلق بحث شامل ہے جنہیں ریاست اور میڈیا کے بیانیے میں دہشتگردی سے جوڑا جاتا ہے۔ یہ بحث شجرِ ممنوعہ سمجھی جاتی ہے اور اس کا عملی مظاہرہ ہم نے اسلام آباد میں پختون لانگ مارچ کے دھرنے کی کوریج کی واضح طور پر کمی کی شکل میں دیکھا۔

پڑھیے: فاٹا میں مسلسل جنگ سے ذہنی امراض میں خطرناک اضافہ

دوسری وجہ

ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی طرف سے خطرات کی بناء پر صحافیوں کو فاٹا تک رسائی نہایت محدود ہے۔ سیکیورٹی فورسز کے ساتھ کام کر رہے صحافی اس جنگ زدہ علاقے کی ایک نہایت خوشگوار تصویر پیش کرتے ہیں اور ان بیانیے کا متبادل نہ ہونے کے برابر ہے۔

تیسری وجہ

فاٹا اور پختون مسائل سے متعلق خبریں زیادہ دلچسپی پیدا نہیں کرتیں، چنانچہ منافعے کے لیے کام کر رہے کارپوریٹ نیوز چینلز کو اس سے ریٹنگز حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس کا تعلق اس وسیع تر عوامی بیانیے سے بھی ہے جس میں پختون، بالخصوص فاٹا سے تعلق رکھنے والوں کو دہشتگرد یا مجرم ہی سمجھا جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ فاٹا میں جون 2016ء سے موبائل انٹرنیٹ سروس بند ہے اور براڈبینڈ انٹرنیٹ صرف چند قصبوں تک ہی محدود ہے۔

لیکن پھر فاٹا میں میڈیا کوریج اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کے باوجود فاٹا کے نوجان انٹرنیٹ پر جمع ہونے میں کامیاب کیسے ہوگئے؟ سوشل میڈیا پر فاٹا سے متعلق تحریکوں میں سرگرم زیادہ تر نوجوان یا تو سیکیورٹی آپریشنز کی وجہ سے دربدر ہونے کے بعد خیبر پختونخواہ کے قریبی شہروں میں مقیم ہیں یا پھر کراچی، لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں۔ یہاں اکثر انہیں ریاستی اداروں اور معاشرے کی جانب سے لسانی تفریق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

پختونوں کے مطابق وہ اپنے علاقوں فاٹا اور خیبر پختونخواہ کے علاوہ دیگر شہری علاقوں میں بھی کئی ناانصافیوں کا شکار بنتے رہے ہیں۔

پہلا مسئلہ

فاٹا اور سوات میں کئی چیک پوسٹیں قائم ہیں اور بسا اوقات یہ ایک دوسرے سے نہایت قریب واقع ہیں جن کی وجہ سے مقامی لوگوں کی نقل و حرکت مشکل ہوجاتی ہے۔ ایسے سلوک سے مقامی افراد میں غم و غصہ جنم لیتا ہے کیوں کہ ان کے ساتھ اپنی ہی سرزمین پر اجنبیوں کی طرح سلوک کیا جاتا ہے۔ جنوبی اور شمالی وزیرستان ایجنسیوں میں تو مقامی افراد کے لیے خصوصی کارڈز جاری کیے گئے تھے جن کے بغیر وہ وہاں داخل ہی نہیں ہوسکتے تھے۔ مقامی افراد انہیں 'وزیرِستان ویزا' کہتے ہیں۔

مزید پڑھیے: فاٹا کو پختونخوا میں ضم کرنے کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے؟

دوسرا مسئلہ

فاٹا اور سوات میں کرفیو کا نفاذ عام بات ہے اور فوج پر ایک حملے کے بعد مقامی افراد کی گرفتاریوں پر بھی احتجاج ہوئے ہیں۔ اس میں جائے وقوعہ پر موجود کسی بھی شخص کو دیکھتے ہی گولی مار دینا بھی شامل ہے۔ کالونیل دور کے سیاہ قانون فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) 1901ء کی اجتماعی سزا کی شق کا استعمال کئی بار کیا جاچکا ہے جس کے تحت قبیلے کے کسی ایک شخص کے جرم کی سزا قبیلے کے تمام مرد ارکان کو دی جاتی ہے اور عدالتی نظام کی عدم موجودگی میں انصاف یا تو مقامی پولیٹیکل ایجنٹ کرتا ہے یا پھر فوج کا کمانڈنگ افسر۔

تیسرا مسئلہ

یہاں یہ بے چینی بھی موجود ہے کہ سخت ترین سیکیورٹی کے باوجود مقامی افراد پر دہشتگرد حملے جاری ہیں۔ 2017ء میں پاراچنار احتجاج کی وجہ بھی یہی تھی کیوں کہ وہاں چیک پوسٹس کے باوجود یکے بعد دیگرے کئی دھماکوں میں بڑی تعداد میں اموات ہوئیں۔

چوتھا مسئلہ

پختونوں کے ساتھ اکثر اوقات ملک میں لسانی تفریق برتی جاتی ہے جس میں پنجاب پولیس کے 2017ء کے ایک حکم نامے اور دیگر اعلانات کے تحت فاٹا کے آپریشن متاثرین (آئی ڈی پیز) کا سندھ اور پنجاب میں داخلہ ممنوع دیا گیا ہے۔

مگر جو بات پختون لانگ مارچ کی وجہ بنی، وہ کراچی میں سندھ پولیس کے ہاتھوں ایک جعلی مقابلے میں نقیب اللہ محسود کا قتل تھا، جوکہ لاکھوں پختونوں کی طرح ایک محنت کش تھے۔ وہ ماڈل بننے کی خواہش بھی رکھتے تھے۔ ان کے قتل کی کہانی جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو وہ پختونوں کے ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور لسانی تفریق کی ایک مثال بن گئے۔

مظاہرین 1 فروری سے 10 فروری تک اسلام آباد میں پڑاؤ ڈالے رہے اور حکومت کی جانب سے مطالبات تسلیم کرنے کی یقین دہانی کے بعد دھرنا ختم کردیا گیا۔ مطالبات میں

  • پختونوں کے ماورائے عدالت قتل کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیشن؛
  • اخبار کی رپورٹ کے مطابق نقیب اللہ سمیت سینکڑوں دیگر افراد کے قتل میں ملوث راؤ انوار کی گرفتاری اور ٹرائل؛
  • کرفیو کے دوران مقامی افراد سے بدسلوکی کا خاتمہ؛
  • جبری طور پر گمشدہ پختونوں کی رہائی؛ اور
  • جنوبی وزیرِستان میں کئی جانیں لینے والی بارودی سرنگوں کا مکمل خاتمہ شامل تھا۔

مزید پڑھیے: ڈان انویسٹی گیشن : راؤ انوار اور کراچی میں ’ماورائے عدالت قتل‘

فاٹا نوجوان جرگہ اپنے چند مقاصد کے حصول میں کامیاب رہا ہے۔ ان کی مہم کی وجہ سے پارلیمنٹ میں بالآخر اعلیٰ عدالتوں کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھانے پر مثبت ووٹنگ ہوئی۔ پختون لانگ مارچ کو بھی کامیابی ملی ہے۔ اس کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مظاہرین کی جانب سے جن 71 لاپتہ افراد کی رہائی کا مطابلہ کیا گیا تھا، وہ واپس آچکے ہیں۔

اس دوران آرمی چیف نے وزیرِستان میں داخلے کے لیے وطن کارڈ یا وزیرِستان ویزا کی شرط بھی ختم کردی ہے۔ ان کامیابیوں نے ہزاروں دیگر پختونوں کو سوات، خیبر ایجنسی اور باجوڑ ایجنسی میں چیک پوسٹوں پر بدسلوکی، کرفیوز اور مقامی افراد کے گھروں پر چھاپوں، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف احتجاج کرنے کی ہمت دلائی ہے۔

وقت ہے کہ ریاست کو احساس ہوجائے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سیاست اخباروں، ریڈیو، ٹی وی اور پمفلٹ کے دور سے نہایت مختلف ہے جنہیں سینسر کرنا آسان تھا۔ انٹرنیٹ پر سینسرشپ کو چکمہ دینا نہایت آسان ہے اور سوشل میڈیا نے شہریوں کو ناانصافیوں کے خلاف پُرامن طور پر متحرک اور منظم ہونے کی صلاحیت دی ہے۔

اس لیے ڈرانے دھمکانے کے حربے مثلاً سوات میں مظاہرین کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج یا مقامی تحریکوں کو ملک دشمن اور بیرونی ایجنسیوں کا آلہ کار قرار دینا اب نہیں چل سکتا۔ پختون نوجوان ایک بعد از 11 ستمبر کی سیکیورٹی اسٹیٹ میں بڑے ہوئے ہیں اور انہوں نے دربدری، تشدد اور تفریق دیکھی ہے۔ ریاست کی سیکیورٹی پالیسی میں دہشتگردی کے خلاف برسرِپیکار ہوتے ہوئے بھی انسانی سلامتی اور بنیادی حقوق کو ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔ منظم اور پُرعزم نوجوان اس سے کم پر نہیں مانیں گے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 26 فروری 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

اسامہ خلجی

لکھاری ایک سماجی کارکن، محقق، اور ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم گروہ 'بولو بھی ' کے ڈائریکٹر ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: UsamaKhilji@

www.usamakhilji.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

TRUMP ET Feb 27, 2018 10:38am
Disagreed. The Naqeeb protests get top media coverage. Pushtuns are sensible enough to know security checks keep the terrorists from coming back.
TRUMP ET Feb 27, 2018 10:39am
Pushtuns are patriotic and serving everywhere including Army.

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024