‘اسلام آباد میں اربوں مالیت کی اراضی کے خریدار ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں‘
اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے انکشاف کیا ہے کہ اسلام آباد میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں گزشتہ 4 برسوں کے دوران 6 ہزار 348 دولت مند شہریوں نے مجموعی طورپر 106 ارب روپے کا لین دین کیا۔
ایف بی آر کے مطابق کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی جانب سے فراہم کردہ دستاویزات سے معلوم ہوا کہ اسلام آباد کی مہنگی ترین اراضی کو ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) ریٹ پر تفویض کی گئی جو کہ اصول قیمت کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ کم ہے۔
یہ پڑھیں: بااثر بیوروکریٹس بہترین اپارٹمنٹس کے مالک بن گئے
اس حوالے سے بتایا گیا کہ اسلام آباد میں 2014 سے 2017 کے درمیانی عرصے میں 3 ہزار 530 رہائشی اور 2 ہزار 818 کمرشل اراضی خریدی گئیں۔
واضح رہے کہ دارالحکومت میں رہائشی اور کمرشل اراضی خریدنے کے لیے اسلام آباد اور راولپنڈی کے رہائشیوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی جس کے بعد پشاور وہ شہر ہے جہاں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں وسیع پیمانے پر سرمایہ لگایا گیا، پشاور کے بعد کراچی اور پھر لاہور کا نمبر آتا ہے۔
سرمایہ کاروں کی تفصیلات اور ان کے لین دین سے متعلق ساری معلومات ملک کے 15 ریجنل ٹیکس آفس میں ارسال کی گئیں تاکہ متعلقہ اشخاص کو نوٹس کے ذریعہ مطلع کرکے ان کی آمدنی کے ذرائع معلوم کیے جاسکیں۔
یہ بھی پڑھیں: 'پراپرٹی مارکیٹ میں کالے دھن کی شمولیت سے قیمتوں میں اضافہ'
ایف بی آر کے ایک عہدیدارنے ڈان کو بتایا کہ ’ارسال کی گئی تفیصلات کی مد میں موصول ہونے والے اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ نصف سے زائد شہری ٹیکس نیٹ میں شامل ہی نہیں یعنی اربوں روپے کے لین دین تو جاری ہے لیکن ان کے پاس ٹیکس نمبر تک موجود نہیں اس لیے متعلقہ افراد کے خلاف ایف بی آر کارروائی کرے گی جس کے نتیجے میں غیرمعمولی ریونیو حاصل ہوگا‘۔
ڈان کو دستیاب دستاویزات کے مطابق دارالحکومت میں رہائشی اور کمرشل اراضی کے لین دین میں اسلام آباد کے رہائشی صف اول پر رہے، یعنی کل 3 ہزار 617 شہریوں میں سے نصف تعداد اسلام آباد کے رہائشیوں پر مشتمل ہے جہنوں نے دارالحکومت کی رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کی جو کہ مجموعی طورپر 56 ارب 80 کروڑ روپے بنتی ہے۔
اس حوالے سے راولپنڈی دوسرے درجے پر آتا ہے جہاں کے 935 شہریوں نے اسلام آباد کے پرکشش مقامات پر رہائشی اور کمرشل اراضی کے لین دین میں تقریباً 12 ارب 40 کروڑ روپے لگائے۔
مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی: لالچ اور قبضے کا لامحدود سلسلہ
پشاور کے 667 شہریوں نے 417 رہائشی اور 250 کمرشل اراضی کے لین دین میں 10 ارب 70 کروڑ لگائے۔
پشاور میں رہائش پذیر ایک صنعت کار نے ڈان کوب تایا کہ خیبرپختوںحوا میں صنعتی اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں اس لیے کاروباری حضرات دوسرے شہروں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ پاکستانی مصنوعات کی خریداری میں افغان درآمد کنندگان کی عدم دلچسپی کے باعث تاجربرداری میں مایوسی پھیل رہی ہے‘۔
پشاور کے صنعت کار نے بتایا کہ پشاور کے تاجروں اور صنعت کاروں کو اسلام آباد میں رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری سے کچھ ریلف مل جاتا ہے۔
کراچی سے اسلام آباد میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں مجموعی طورپر 9 ارب 30 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری 288 رہائشی اور 136 کمرشل اراضی پر کی گئی۔
دوسری جانب لاہور کے 329 شہریوں نے اسلام آباد کے 244 رہائشی اور 85 کمرشل اراضی پر 5 ارب 70 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی گئی جس میں سے 203 شہری آرٹی او میں رجسٹرڈ ہیں۔
ایف بی آر حکام نے بتایا کہ پنجاب حکومت خود اسلام آباد میں اراضی کے لین دین میں سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش مواقعے فراہم کرتی ہے جس کی وجہ سے لاہور سے محدود پیمانے پر ٹیکس کی ادائیگی ہو سکی لیکن اس کے باوجود بڑی تعداد ایسے سرمایہ کاروں کی ہے جو ٹیکس ادا نہیں کرتے۔
ڈان کو موصول دستاویزات کا مزید جائزہ لینے سے معلوم ہوا کہ ایبٹ آباد سے اسلام آّباد میں 63 رہائشی اور 20 کمرشل اراضی کے خریداروں نے 3 ارب 50 کروڑ روپے کا لین دین کیا۔
اسی طرح کوئٹہ سے 103 شہریوں نے 41 رہائشی اور 62 کمرشل اراضی کی خریداری پر 5 ارب 70 کروڑروپے ، فیصل آباد سے 57 شہریوں نے 35 رہائشی، 22 کمرشل اراضی کی لین دین میں 1 ارب 30 کروڑ روپے، سیالکوٹ سے 55 افراد نے 28 رہائشی اور 27 کمرشل اراضی پر 67 کروڑ 38 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی اور سرگودھا سے 21 رہائشی اور 22 کمرشل اراضی کی خریداری میں 33 کروڑ 43 لاکھ روپے خرچ کیے۔
یہ خبر 25 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی