سپریم کورٹ:پولیس افسران کی خلاف ضابطہ ترقیوں سے متعلق اپیلیں مسترد

شائع February 21, 2018

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پنجاب پولیس کے افسران کی خلاف ضابطہ ترقیوں (آؤٹ آف ٹرن پرموشن) سے متعلق اپیلیں مسترد کردیں۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے افسران کی اپیلیں مسترد کیں۔

خیال رہے کہ پولیس افسران نے انسپکٹر جنرل ( آئی جی) پنجاب کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جبکہ آئی جی کی جانب سے عدالتی فیصلوں سے ترقی پانے والوں کو بھی ڈی نوٹیفائی کردیا تھا۔

عدالت میں سماعت کے دوران متاثرہ پولیس افسران کے وکیل نے کہا کہ عدالت پہلے بھی ریٹائرڈ افسران کی پرموشن کو اپنے فیصلے سے تحفظ دے چکی ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ چاہتے ہیں کہ انہیں ریٹائرڈ ہونے کا آپشن دیا جائے۔

مزید پڑھیں: ’بنیاد ختم ہوجائے تو اس پر ملی ترقی کیسے برقرار رہے گی؟‘

بعد ازاں عدالت نے مختصر فیصلہ دیتے ہوئے پولیس افسران کی اپیلیں مسترد کردی، کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پولیس میں خلاف ضابطہ ترقیوں (آؤٹ آف ٹرن پرموشن) کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے تھے کہ جس بنیاد پر ان افسران کو ترقی ملی وہ بنیاد ختم ہوگئی اور جب بنیاد ختم ہوجائے تو اس پر ملی ترقی کیسے برقرار رہے گی؟

چیف جسٹس نے مزید کہا تھا کہ عدالت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے کا اختیار ہے جبکہ عدالتی فیصلوں سے ترقی پانے والوں کا تحفظ واپس لے سکتے ہیں۔

’ادویات ربڑی تھوڑی ہے جس کا دل چاہے اس قیمت پر فروخت کی جائے‘

دوسری جانب سپریم کورٹ میں جان بچانے والی ادویات مہنگے داموں فروخت کرنے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران وکیل رشید اے رضوی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف عدالتوں سے حکم امتناعی لیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہر چیز میں اضافہ میں اضافہ ہورہا اور مہنگائی بھی بڑھ رہی ہے اور ادویات کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ادویات ربڑی تھوڑی ہے جس کا دل چاہے اس قیمت پر فروخت کی جائے، اگر ادویات کی قیمتیں بڑھنے کا کوئی طریقہ کار ہے تو اس کا جائزہ لے لیتے ہیں، کسی کی مجبوری کا فائدہ بھی نہیں اٹھانا چاہیے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈاکٹر کی ادویات بنانے والی کمپنیوں سے محبت ہوتی ہے اور ڈاکٹر بھی وہی دوائی تجویز کرتے ہیں جس کمپنی سے انہیں محبت ہوتی ہے۔

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس اور وکیل رشید اے رضوی کے درمیان مکالمہ بھی ہوا۔

وکیل رشید اے رضوی نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے خصوصی بینچ تشکیل دے دیا ہے، آپ سندھ ہائی کورٹ کو ایک ماہ میں ادویات سے متعلق زیر التوا مقدمات نمٹانے کا حکم دیں۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے کیس سننا ہے تو کیس کی تیاری کے لیے سماعت منگل تک ملتوی کردیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ رشید رضوی صاحب جیسے آپ کہتے ہیں ویسے کرلیتے ہیں، پھر کچھ دن کے لیے تو ہم سے محبت کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ادویات کیس: ’سندھ ہائی کورٹ حکم امتناعی کی درخواستوں پر 15 روز میں فیصلہ کرے‘

بعد ازاں عدالت نے جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں سے متعلق کیس کی سماعت 27 فروری تک ملتوی کردی۔

اس سے قبل گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ سے ادویات سے متعلق تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے 15 روز میں حکم امتناعی کی درخواستوں پر فیصلہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ جان بچانے والی ادویات مہنگے داموں فروخت نہیں ہونی چاہییں اور ادویات کی رجسٹریشن کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔

پی ٹی وی فنڈز سے سلیپر بھی خریدے گئے، چیف جسٹس

علاوہ ازیں سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دورکنی بنچ نے چیئرمین پی ٹی وی کی تعیناتی کیس پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار اور سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید پیش ہوئے اور عدالت کو اپنے موقف سے آگاہ کیا۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سنا ہے عطاالحق قاسمی نے کیمپ آفس کھول رکھا تھا اور انہوں نے کچھ خریداری بھی کی ہے اور انہوں نے اپنے گھر کے لیے بالٹی اور نمک دانی بھی خریدی ہے جبکہ ان کے بیٹے کو ساڑھے 8 لاکھ روپے اسکرپٹ کے بھی دیے جاتے رہے ہیں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پرویز رشید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی پسند اچھی نہیں رہی، آپ خود منصف بن کر سوچیں ریاست کا پیسہ کس طرح ضائع کیا گیا یا تو معاملہ آڈٹ کے لیے بھجوا دیا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک طریقے سے معاملہ نیب کو بھی بھجوانے کا بھی ہے، اگر تعیناتی میں اقربا پروری ہوئی تو نیب اس کا جائزہ لے گا۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے کا آڈٹ فرگوسن یا کسی دوسری کمپنی سے کروائی گے اور اس کی رپورٹ بھی نیب کو بجوائی جائے گئی۔

سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے کہا کہ عدالت عطاالحق قاسمی کی تقرری کے معاملے کو دیکھ لے، وفاقی وزی نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے تقرری کی۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جس انداز میں تقرری ہوئی ہے کیا یہ اقربا پروری نہیں تھی، کیا یہ کسی کو فیور تو نہیں دی گئی۔

مزید پڑھیں: عطاالحق قاسمی کو کس نے پی ٹی وی چیئرمین نامزد کیا، چیف جسٹس کا استفسار

چیف جسٹس نے پرویز رشید سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ وکیل کرنا چاہتے ہیں، آپ دیکھ لیں کہ آپ نے وکیل کرنا ہے یا نہیں؟ جس پر پرویز رشید نے کہا کہ میں مشورہ کرکے عدالت کو آگاہ کردوں گا۔

سماعت کے دوران مزید ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی وزیر متعلقہ فورم کا سامنا کریں، جو لوگ وکیل کرنا چاہتے ہیں کرلیں اور کیوں کہ عطاالحق قاسمی پر اٹھنے والے اخراجات کا آڈٹ کروالیں۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی کے فنڈز سے سلیپر بھی لیے گئے جبکہ روٹی پکانے والا بھی خریدا گیا۔

سماعت کے دوران عدالت نے نجی کمپنی کے نمائندے کو طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آڈٹ کروانے کی حدود و قیود کیا ہوں گی؟

انہوں نے کہا کہ فواد حسن فواد بھی اگر وکیل کرنا چاہیں تو کرلیں، ہم نے فواد حسن فواد کو بیٹھنے کا کہا تھا لیکن یہ کہا جارہا کہ بیوروکریٹ کو جھاڑ پلا دی۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ بیورو کریٹ بیک بون ہوتا ہے اور ہم اپنی بیورو کریسی کو کیوں جھڑکیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 26 دسمبر 2024
کارٹون : 25 دسمبر 2024