• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

‘پاکستان کو دہشت گردوں کے معاون ممالک کی واچ لسٹ میں ڈالنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا‘

شائع February 19, 2018

واشنگٹن: امریکا کی جانب سے پاکستان کو دہشت گردوں سے ‘تعاون’ کی واچ لسٹ میں شامل کرنے کی تجویز کو امریکی تھنک ٹینک ووڈ روولسن نے یکسر مسترد کردیا۔

تھنک ٹینک میں شامل تین ماہرین نے واضح کہا کہ ‘پاکستان کو دہشت گرد وں کی فہرست میں شامل کرنے سے امریکا کی پریشانیوں میں تنزلی نہیں آئے گی، ایسا کرنے سے امریکا اسلام آباد کو اپنی پالیسی میں تبدیلی کے لیے مجبور نہیں کر سکتا اور نا ہی امریکا افغانستان میں اپنے ممکنہ مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو سکے گا’۔

یہ پڑھیں: افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں، آرمی چیف

واشنگٹن میں اسکول آف پبلک افئیر کے اسسٹنٹ پروفیسر اسٹیفن ٹینکل نے تجزیہ پیش کیا کہ ‘پاکستان کو دہشت گردوں کا سہولت کار قرار دینا انتہائی خطرناک ہے اور اس طرز عمل سے خطے میں پیدا کردہ امریکی صورتحال کے خاتمے کی گنجائش ختم ہو جائے گی’۔

ریڈیو مشال کے سینئر ایڈیٹرداؤد خٹک نے بھی امریکا کی تجویز کو غیر موثر قرار دیتے ہوئے کہا کہ ‘اگر آج پاکستان کو دہشت گردوں کا سہولت کار قرار دیا گیا اور کوئی تبدیلی نہیں آئی تو امریکا کا اگلہ قدم کیا ہوگا؟ کیا وہ مزید بدتر اقدامات اٹھائے گا؟’

واضح رہے کہ گزشتہ روز جرمنی کے شہر میونخ میں سیکورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان میں دہشت گردی اور جہاد کے حوالے سے مغرب میں پائی جانے والی غلط فہمیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان 40 برس قبل جو بویا گیا تھا اس کو کاٹ رہا ہے اور سرحد کے ساتھ افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں جبکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔

آرمی چیف کا کہنا تھا کہ جہاد کا حکم دینے کا اختیار صرف ریاست کوہے اور خود پر قابو رکھنا بہترین جہاد ہے جبکہ تمام مکتبہ فکر کے علما نے جہاد کے نام پر ہونے والے نام نہاد جہاد کے خلاف فتویٰ دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دہشت گردی کیا ہے؟

واشنگٹن میں 'بروکنگز انسٹی ٹیوشن' سے منسلک ڈاکٹر مدیحہ افضال نے بھی امریکی تجویز مسترد کی اور کہا کہ امریکا کو اپنا طرز رویہ بدلنا ہوگا اور پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لیے چین کے ساتھ بات چیت کرنی پڑے گی تاکہ پاکستان افغانستان کے معاملے پر امریکا کی سنے اور یقیناً وہ توجہ دے گا’۔

مدیحہ افضال نے کہا کہ ‘واشنگٹن کو پاکستانیوں سے متعلق اپنا نقطہ نظر درست کرنے کی ضرورت ہے پِیو گلوبل سروے کے مطابق 89 فیصد پاکستانی اسلام کے نام پر عام شہریوں کے قتل و غارت گری کو کبھی قبول نہیں کرتے’۔

داؤد خٹک نے اس تاثر کو رد کیا کہ گزشتہ مہینے اسلام آباد میں پاکستان کے خلاف قبائلیوں نے احتجاج کیا۔

انہوں نےو اضح کیا کہ ‘وہ احتجاج پاکستان مخالف نہیں تھا بلکہ پاکستانی حکومت کے خلاف تھا جس میں لاپتہ افراد کی بازیابی اور فوجی چیک پوسٹوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا’۔

داؤد خٹک نے افغانستان کے پڑوسی ممالک اور عالمی کمیونٹی پرالزام عائد کیا کہ ان کی تمام تر جدوجہد انفرادی برائیوں کے لیے ہے ناکہ طالبان کو شکست دینے کے لیے۔

مزید پڑھیں: پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ تیسرا بڑا ملک

اسٹیفن ٹینکل نے امریکا کی جانب سے پاکستان کی عسکری امداد روکنے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ‘امداد روکنے سے امریکا انتہائی مخالف سمت کھڑا ہو جائے گا اور پھر جب امریکا کو دوبارہ پاکستان سے رابطہ کرنے کی ضرورت پڑے گی تب اس کے لیے پریشانی دگنی ہوں گی’۔

اسٹیفن ٹینکل نے ساتھ ہی واضح کیا کہ ‘امریکا کو ہر صورت میں پاکستان کی مدد درکار ہو گی’۔

اسسٹنٹ پروفیسر اسٹیفن ٹینکل نے تجویز دی کہ ‘نئی پابندی ضرور عائد کی جائیں لیکن ان کا تعلق حقائق پر مبنی ہوں اور ان پر عملدرآمد بھی کیا جا سکے’۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024