چیف جسٹس، شاہ رخ جتوئی کی میڈیکل رپورٹ پر برہم، شرجیل میمن کی جیل منتقلی کا حکم
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے شاہ زیب قتل کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کے لیے تیار کی گئی میڈیکل رپورٹ کے حوالے سے ڈاکٹروں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جناح ہسپتال کا اچانک دورہ کیا اور ہسپتال کے معاملات بھی دیکھے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے شاہ رخ جتوئی کی دوبارہ گرفتاری کے ایک ہفتے کے بعد ہی مبینہ طور پر طبیعت کی خرابی کے باعث جناح ہسپتال منتقلی پر نوٹس لیا تھا۔
جناح ہسپتال کراچی کی جانب سے تیاری کی گئی شاہ رخ جتوئی کی میڈیکل رپورٹ انسپکٹر جنرل سندھ جیل نصرت مگھن نے عدالت کے سامنے پڑھ کر سنایا جس پر چیف جسٹس نے واضح طور پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور ہسپتال کے معیار کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے۔
رپورٹس کے مطابق دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ شاہ رخ جتوئی کو پائلز کا مرض ہے جس پر چیف جسٹس نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کو پہلے دل کا مسئلہ تھا۔
چیف جسٹس نے نصرت مگھن کی جانب سے شاہ رخ جتوئی کو جیل کی 'سی' کیٹگری دینے پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک قتل کے ملزم کو 'سی' کلاس کیوں دی گئی ہے اور 'وہ ڈارک سیل میں کیوں نہیں ہیں'۔
نصرت مگھن نے کہا کہ جب سپریم کورٹ ملزم کی سزا کا تعین نہیں کرتی جب تک انھیں 'سی' کلاس میں رکھا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے جیل حکام کو طبی حوالے سے جیل سے ہسپتال منتقل کیے گئے قیدیوں کی فہرست جمع کرانے کا حکم بھی جاری کردیا۔
خیال رہے کہ اس سے قبل ہستپال ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ جتوئی کو صحت کی خرابی کی شکایت پر ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے تاہم پولیس اور محکمہ صحت کے حکام کی جانب سے مرض کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔
شاہ رخ جتوئی سمیت سیراج تالپور اور سجاد تالپور کو کراچی کے علاقے ڈیفنس میں نوجوان شاہ زیب کو قتل کرنے کے الزام پر گرفتار کیا گیا تھا جنھیں کراچی جیل سے گزشتہ سال رہا کر دیا گیا تھا تاہم چیف جسٹس کی جانب سے ازخود نوٹس کے بعد تینوں ملزمان کو دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا۔
شاہ زیب قتل کیس کا تیسرا ملزم تالپور کے ملازم غلام مرتضیٰ لاشاری بھی جیل میں ہی ہے۔
یاد رہے کہ شاہ رخ جتوئی کو گزشتہ سال دسمبر میں رہائی سے قبل دوران قید میں مبینہ طور پر صحت کی خرابی کے باعث ہسپتال میں رکھا گیا تھا اور ان کی رہائی بھی ہسپتال سے عمل میں آئی تھی۔
شرجیل میمن کو ہسپتال سے جیل منتقل کرنے کا حکم
دوسری جانب چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما شرجیل میمن کو جناح ہسپتال سے سینٹرل جیل منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) جیل نصرت منگن پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘احتساب عدالت نے شرجیل میمن کا صرف طبی ٹیسٹ کرانے کا حکم دیا تھا لیکن آپ نے ازخود کن بنیادوں پر ایک ملزم کو ہسپتال منقتل کیا'۔
چیف جسٹس نے آئی جی جیل خانہ جات کی رپورٹ کو خود ساختہ قرار دیتے ہوئے عدم اعتماد کا اظہار کیا اور اس کے علاوہ میڈیکل انسٹیٹیوٹ کے معیار پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔
خیال رہے کہ سابق صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن، سابق صوبائی سیکریٹری اطلاعات، سابق ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن ڈپارٹمنٹ اور دیگر پر 15-2013 کے دوران سرکاری رقم میں 5 ارب 76 کروڑ روپے کی خرد برد کا الزام ہے۔
سابق صوبائی وزیر پر الزام ہے کہ انہوں نے مذکورہ رقم صوبائی حکومت کی جانب سے آگاہی مہم کے لیے الیکٹرونک میڈیا کو دیے جانے والے اشتہارات کی مد میں کی جانے والی کرپشن کے دوران خرد برد کی۔
شرجیل انعام میمن نے 2015 میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی تھی اور تقریباً 2 سال تک بیرون ملک رہنے کے بعد جب وہ گزشتہ برس 18 اور 19 مارچ کی درمیانی شب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچے، تو انہیں قومی احتساب بیورو (نیب) کے اہلکاروں نے ایئرپورٹ سے ہی گرفتار کرلیا تھا۔
تاہم 2 گھنٹے پوچھ گچھ کرنے اور ضمانتی کاغذات دیکھنے کے بعد نیب راولپنڈی کے اہلکاروں شرجیل میمن کو رہا کردیا تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس مارچ میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 20 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض شرجیل میمن کی حفاظتی درخواست ضمانت منظور کی تھی۔
یہ بھی یاد رہے کہ 23 اکتوبر 2017 کو سندھ ہائی کورٹ نے نیب کی اپیل پر شرجیل انعام میمن سمیت دیگر ملزمان کی درخواست ضمانت مسترد کردی تھی جس کے بعد نیب کی ٹیم نے انھیں عدالت سے باہر آتے ہی گرفتار کرلیا تھا۔
بعدِ ازاں سابق صوبائی وزیر سمیت 12 ملزمان کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں ضمانت کے لیے درخواستیں دائر کی گئی تھی جنہیں چیف جسٹس احمد علی ایم شیخ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے مسترد کردیا تھا۔
واضح رہے کہ 25 نومبر 2017 کو شرجیل میمن نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت کی درخواست مسترد کرنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
4 دسمبر 2017 کو ہونے والی سماعت بغیر کسی کارروائی کے ملتوی کردی گئی تھی جس میں ممکنہ طور پر ان کے اور دیگر شریک ملزمان کے خلاف فردِ جرم عائد کی جانی تھی۔
سماعت سے قبل شرجیل میمن کے وکیل کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ سابق صوبائی وزیر کی طبیعت نا ساز ہے اور انہیں طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے۔
13 دسمبر 2017 کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے شرجیل انعام میمن کی طبی سہولیات کی تشخیص کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم دیتے ہوئے اس میں نیورولوجسٹ، نیورو فیزیشنز اور دیگر ڈاکٹروں کو شامل کرنے کی ہدایت جاری کی تھی جبکہ سیکریٹری صحت کو بھی اس حوالے سے جواب جمع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
23 دسمبر 2017 کو شرجیل میمن اور دیگر ملزمان کی جانب سے احتساب عدالت میں درخواست دائر کی گئی جس میں موقف اختیار کیا کہ نیب حکام نے اپنی رپورٹ میں ملزمان کی گرفتاری سے متعلق عدالت کو گمراہ کیا تاہم ان کی گرفتاری کے اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔
شرجیل انعام میمن کی جانب سے دائر درخواست کے بعد عدالت نے ملزمان پر فردِ جرم عائد کرنے کی کارروائی آئندہ سماعت تک مؤخر کردی تھی۔
سابق صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن سمیت دیگر ملزمان کی جانب سے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستیں سپریم کورٹ میں بھی دائر کی گئیں تھیں جنہیں 2 جنوری 2018 کو عدالتِ عظمیٰ نے کو مسترد کردیا تھا۔