توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والوں کے خلاف قانون بن گیا، جسٹس شوکت عزیز
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 کا ترمیمی مسودہ پیش کردیا گیا جس کے مطابق توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والے اور مرتکب ملزم کو ایک ہی سزا ملے گی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کی موجودگی اور توہین رسالت سے متعلق عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔
کیس کی سماعت کے دوران انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 کا ترمیمی مسودہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا۔
مزید پڑھیں: پورنو گرافی روکنے سے متعلق حکومتی اقدامات کی رپورٹ طلب
ترمیمی مسودے کے مطابق توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والے اور مرتکب ملزم کو ایک ہی سزا ملے گی۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والوں کے خلاف قانون بن گیا اور یہ کام بھی عدالت نے ہی کروایا ہے۔
علاوہ ازیں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے گستاخانہ مواد ختم کرنے سے متعلق رپورٹ بھی عدالت میں جمع کرادی۔
یہ بھی پڑھیں: انٹرنیٹ پرگستاخانہ مواد: عدالت کا حکومت کو فوری اقدامات کا حکم
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پی ٹی اے نے 550 ویب سائٹ بلاک کیں اور 7 لاکھ 63 ہزار غیر اخلاقی ویب سائٹ کے لنکس بلاک کیے گئے۔
پی ٹی اے کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ عدالتی فیصلے کے بعد 2 لاکھ 79 ہزار کے قریب غیراخلاقی ویب سائٹس کو بلاک کیا گیا۔
بعد ازاں کیس کی سماعت 16 مارچ تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
26 جنوری 2018 کو ہونے والی مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے پورنو گرافی روکنے سے متعلق حکومتی اقدامات کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سوال اٹھایا تھا کہ سیکریٹری داخلہ بتائیں کہ پورنو گرافی کیسے پھیلائی جا رہی ہے؟ اور حکومت نے اسے روکنے کے کیا اقدامات کیے؟
مزید پڑھیں: 'کیا گستاخانہ مواد کی بندش میں عسکری اداروں کی مدد لی جائے؟'
اس سے قبل 16 دسمبر 2017 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کیس میں وفاقی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ اگر ایک ہفتے میں حکم پر عملدرآمد نہیں ہوا تو آئندہ سماعت پر وزیراعظم اور کابینہ کے اراکین کو عدالت میں طلب کرنے کے سمن جاری کردیئے جائیں گے۔
واضح رہے کہ فاضل عدالت نے حکومت کو 31 مارچ 2017 کو سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کے خلاف قانون سازی سے متعلق اقدامات اٹھانے اور اس ضمن میں حکومت کو مفصل رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔