زینب قتل کیس: انسدادِ دہشت گردی عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا
لاہور: کوٹ لکھپت جیل میں انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) کے جج نے زینب قتل کیس میں حتمی بحث مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج سجاد احمد نے زینب قتل کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں استغاثہ کے وکیل حافظ اصغر نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فرانزک رپورٹس کے مطابق عمران ہی زینب کا قاتل ہے جبکہ ملزم کا ڈی این اے رپورٹ اور پولی گراف ٹیسٹ بھی مثبت آیا ہے۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر عبدالرؤف وٹو نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کا پولی گرافک 2 مرتبہ کروایا گیا اور یقینی طور پر دونوں مرتبہ یکساں نتائج سامنے آئے۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر کا مزید کہنا تھا کہ ملزم کے کپٹروں، ننھی زینب کا سویٹر اور کپڑوں کا فرانزک ٹیسٹ بھی کیا گیا۔
مزید پڑھیں: زینب قتل کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سربراہ تبدیل
اس موقع پر ڈپٹی پراسیکیوٹر فرح فیض نے عدالت کو بتایا کہ 4 سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی کیس میں شامل کی گئیں جو ملزم کی نشاندہی کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ملزم کے آڈیوز اور ویڈیوز کی فرانزک رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی گئیں، جن میں بھی ملزم عمران کی ہی نشاندہی ہوتی ہے۔
استغاثہ کی جانب سے معصوم زینب کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی عدالت میں پیش کردی گئی، جس میں بھی زینب کے ساتھ ریپ کے شواہد ملے ہیں۔
عدالت نے حتمی بحث مکمل ہونے کے بعد زینب قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا جسے 17 فروری کو کوٹ لکھپت جیل میں سنایا جائے گا۔
قصور میں 6 سالہ زینب کا قتل
صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔
جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا کہ اس وقت ان کے والدین عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: زینب قتل: ملزم عمران مزید 7 بچیوں کے قتل کیسز میں نامزد
5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تو ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔
بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا تھا تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
بچی کی لاش ملنے کے بعد قصور میں پُر تشدد مظاہروں کا آغاز ہوا اور میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب اہلِ علاقہ نے مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی تھی۔
بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: زینب قتل کیس: 'تالیوں کے بجائے افسوس کی ضرورت تھی'
23 جنوری کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے والد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا، یاد رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملزم عمران کو پاکپتن سے گرفتار کیا گیا تھا۔
24 جنوری 2018 کو قصور میں کم سن زینب کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزم کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جبکہ عدالت نے ملزم کو 14 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔
6 فروری 2018 کو زینب قتل کیس میں پولیس نے اہم پیش رفت کرتے ہوئے مرکزی ملزم عمران کو مزید 7 بچیوں کے ریپ اور قتل کیسز میں نامزد کر دیا تھا اور لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے ملزم کا مزید 3 روزہ ریمانڈ بھی حاصل کیا تھا۔
8 فروری پنجاب پولیس نے زینب سے متعلق کیس میں ملزم عمران کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرکے ملزم کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا تھا۔
9 فروری کو اے ٹی سی نے قصور میں ریپ کے بعد قتل کی جانے والی زینب کے کیس میں گرفتار ملزم عمران کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کردیا تھا۔
یاد رہے کہ 14 فروری کو ملزم محمد عمران کے وکیل مہر شکیل ملتانی اپنے موکل کا مقدمہ لڑنے سے معذرت کرتے ہوئے اس کیس سے دستبردار ہوگئے تھے۔
مہر شکیل ملتانی کے دستبردار ہونے کے بعد سرکاری وکیل محمد سلطان کو عمران کا وکیل مقرر کردیا گیا تھا۔