• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

ایک انتہائی عام عادت جو بانجھ پن کا خطرہ بڑھائے

شائع February 14, 2018
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی— شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی— شٹر اسٹاک فوٹو

آج کل بانجھ پن ایک سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے اور بیشتر جوڑے اس کی وجہ سے پریشانی کا شکار رہتے ہیں اور اب انکشاف ہوا ہے کہ اس کی وجہ لوگوں کی ایک انتہائی عام عادت ہوسکتی ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

بوسٹن یونیورسٹی کی تحقیق میں انتباہ کیا گیا کہ روزانہ میاں یا بیوی میں سے کسی کی جانب سے بھی ایک یا اس سے زائد میٹھے مشروبات یا سافٹ ڈرنکس پینا حمل کے امکانات کم کرتا ہے یا بانجھ پن کا خطرہ پیدا کرتا ہے۔

مزید پڑھیں : 6 غذائیں جو بانجھ پن سے بچائیں

محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے میٹھے مشروبات اور بانجھ پن کے درمیان مثبت تعلق دریافت کیا ہے جو کہ دیگر عناصر بشمول موٹاپا، کیفین، الکحل یا تمباکو نوشی کے استعمال اور مجموعی غذائی معیار سے ہٹ کر ہے۔

تحقیق میں کہا گیا کہ جو جوڑے بچوں کے خواہشمند ہیں انہیں ان میٹھے مشروبات کا استعمال انتہائی کم کردینا چاہئے جو کہ صحت پر دیگر مضر اثرات بھی مرتب کرتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق بانجھ پن کا باعث بننے والے عناصر کی شناخت سے جوڑوں کے لیے والدین بننے کی خواہش جلد پوری کرنا ممکن ہوتا ہے جبکہ وہ ذہنی تناﺅ اور علاج پر ہونے والا خرچہ سے بھی بچتے ہیں۔

اس تحقیق کے دوران پانچ ہزار افراد کا جائزہ لیا گیا اور ان کے طرز زندگی، غذائی عادات وغیرہ کے بارے میں جانا گیا اور یہ سلسلہ ایک سال تک جاری رکھا گیا۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ میٹھے مشروبات کے عادی مردوں اور خواتین میں بچوں کی پیدائش کا امکان اوسطاً بیس فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : نیند کی کمی سے ہونے والے 16 نقصانات

تحقیق کے مطابق جو خواتین ایک دن میں ایک سافٹ ڈرنک پیتی ہیں، ان میں حمل کا امکان 25 فیصد تک جبکہ مردوں میں 33 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ انرجی ڈرنکس کا استعمال بھی بچوں کی پیدائش میں رکاوٹ بن سکتا ہے تاہم اس مشروب کے نتائج لوگوں کی کم تعداد کو دیکھ کر مرتب کیے گئے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل Epidemiology میں شائع ہوئے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024