'گور میں کوئی اور پڑا ہے، مگر عاصمہ امر ہوچکی ہے'
آج جب عاصمہ کو دفنایا جا چکا ہے تو لاہور ہی نہیں بلکہ ملک بھر کی فضاء میں عجب تنوع موجود ہے، جس میں ملال بھی ہے اور چہل بھی۔ عاصمہ کے بارے میں یہی کہنا کافی ہے کہ وہ 1980 کی دہائی کے اوائل میں سیاسی، انسانی و سماجی حقوق کا علم لے کر جمہوری قافلے میں شامل ہوئیں اور چھا گئیں۔
پاکستان میں عوامی و سیاسی طاقت کے مرکز لاہور میں پیدا ہونے والی عاصمہ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو انسانی، سیاسی و سماجی حقوق کے معاملے میں قومیتی تحفظات کو آڑے نہ آنے دیتی تھیں۔ ان کا آخری خطاب ریاستی طاقت کے مرکز اسلام آباد میں ہونے والے پشتون جرگہ سے تھا جہاں انہوں نے پرعزم ہو کر یہ کہا تھا کہ نقیب کا مسئلہ محض پختونوں کا نہیں بلکہ اس کا تعلق پاکستان میں ماورائے عدالت قتل کرنے کی اس خوفناک روایت سے ہے جو تادیر سے ملکِ خداداد پاکستان میں جاری و ساری ہے۔
ویڈیو دیکھیے: عاصمہ جہانگیر کی زندگی پر ایک نظر
1980 کی دہائی کے دوسرے وسط میں ضیاء الحقی پالیسیوں کے خلاف سیاسی و سماجی حقوق کے لیے بنائی گئی 'جوائنٹ ایکشن کمیٹی' کی میٹنگز میں عاصمہ کو نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملا۔ جب میں قانون کی ڈگری لینے کی ناکام کوشش میں اک نجی کالج میں داخل ہوا تو آئین پاکستان کا مضمون پڑھانے کے لیے عاصمہ ہی آئیں۔ یہی وہ وقت تھا جب میں اک پبلشنگ ہاؤس 'روہتاس بکس' میں حصہ دار بنا تو عاصمہ اپنی کتاب ?The Hudood Ordinances: A Divine Sanction لکھ رہی تھیں۔
1990 میں جب یہ کتاب چھپی تو اس کا دیباچہ سپریم کورٹ کے مایہ ناز جج جسٹس دراب پٹیل نے لکھا جو پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کی جانے والی جدوجہد کے سرخیلوں میں شامل تھے۔عاصمہ نے اس کتاب میں دیگر احباب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میرے نام کے ساتھ لکھا 'میں اس کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں عامر ریاض کی مشکور ہوں، اور مجھے خوشی ہے کہ وہ میرا اسٹوڈنٹ رہ چکا ہے۔'
مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب 'پنجاب لوک لہر' کی طرف سے انگریزی مظالم کے خلاف پنجابی مزاحمت کی علامت 'جلیانوالہ قتلام' کا دن منانے کا ارادہ کیا تو اس کام میں عاصمہ جہانگیر، آئی اے رحمان، چوہدری اعتزاز احسن اور فضل حسین راہی شامل ہوئے۔ بعد ازاں رحمان صاحب انسانی حقوق کمیشن سے وابستہ ہو گئے اور آخر تک عاصمہ کے ساتھ رہے۔
میں تو بائیں بازو کی لہر سے جڑا تھا مگر عاصمہ نہ تو کیمونسٹ تھیں، نہ کسی سکہ بند جتھے بندی کا حصہ اور نہ ہی انہوں نے خود کو فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ تو ملک غلام جیلانی کے گھر پیدا ہوئیں تھیں جن کا شمار ان متمول ککے ذئی گھرانوں میں ہوتا تھا جو انگریزی دور میں چابک سوار کہلائے اور گھوڑوں کی تجارت کی وجہ سے راج دربار سے بہت نزدیک رہے۔
لاہور کے ککے ذئیوں کا عدلیہ سے رشتہ انگریز دور سے ہی تگڑا رہا۔ نواب کالا باغ اور ملک غلام جیلانی میں ہونے والے اختلافات میں جوان ہوئی عاصمہ کو زندگی کے بدلتے رنگوں سے واسطہ اوائل عمری ہی میں پڑ چکا تھا۔ شاہد یہی وجہ تھی کہ انہوں نے 1980 کی دہائی کے اوائل میں سیاسی و سماجی تحریک کو اپنایا اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر کی جانے والی جدوجہد کو جمہوری سیاست کے ساتھ جوڑا۔ یہی وہ عمل تھا جس کی وجہ سے بائیں بازو کے ساتھ ان کی قربت بڑھی۔
پڑھیے: ’عاصمہ جہانگیر بلند کردار کی انتہائی نفیس اور اصول پسند خاتون‘
بائیں بازو اور سیاسی و سماجی حقوق کی جدوجہد میں وہ رشتے تو نہ بن سکے البتہ عاصمہ کا شمار اک ایسی جاندار آواز کے طور پر ہونے لگا جو ظلم کے خلاف پیچھے نہ ہٹتی تھی۔ یوں کئی اعتبار سے وہ انقلابیوں اور ترقی پسندوں سے بھی بہت آگے نکل گئیں۔
یہ کہنا تو درست نہیں کہ ان سے کبھی کوئی سیاسی غلطی نہیں ہوئی تھی کہ مشرف کے ابتدائی دور میں بڑے بڑے غچہ کھا گئے تھے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عاصمہ کا شمار انتہا پسندی، بنیاد پرستی اور غیرجمہوری رویوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے ان لیڈروں میں ہوتا ہے جنہیں صرف 11 ستمبر کے بعد انتہا پسندی کی مخالفت یاد نہیں آئی تھی۔ اسی لیے ان کے بیانیے میں اک پختگی نمایاں تھی۔
ہندوستان کے ساتھ تعلقات ان شجر ہائے ممنوعہ میں سے ایک ہے جن پر بات کرنے سے بڑے بڑے ڈرتے رہے مگر عاصمہ جہانگیر اور انسانی حقوق کمیشن کا دفتر پیپلز ٹو پیپلز فورم کے پہلے پاکستانی اجلاس (منعقدہ 1996، لاہور) کا اس وقت مرکز تھا جب دونوں ملکوں میں اعلیٰ سطح پر بھی گجرال فارمولے کا ذکر زور و شور سے جاری تھا۔
2013 میں انڈین ڈیفنس جرنل میں عسکری تجزیہ کار اور ہندوستانی خفیہ ایجنسی را کے سابق افسر بی رامن کا ایک مضمون شائع ہوا جسے پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ہندوستانی خفیہ ایجنسی کو بھی پہلے دن سے پاکستان سے بہتر تعلقات پرمبنی گجرال فارمولے سے سخت اختلاف تھا۔
بقول بی رامن ’’ہم نے گجرال فارمولا پر 15 فیصد سے زیادہ عمل نہ ہونے دیا۔‘‘ عاصمہ کو پاکستان میں بھارت نواز، بھارتی ایجنٹ، غدار اور پتہ نہیں کیا کیا نہیں کہا گیا۔ بی رامن کے اس تجزیے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان میں ایک ذہنیت ایسی موجود ہے جو دونوں ملکوں میں خراب تعلقات کو ہی اہم سمجھتی ہے اور عاصمہ کے خلاف پروپیگنڈا اسی کا شاخسانہ تھا۔
ان کی وفات پر پرسہ دینے والوں کی فہرست بنائی جائے تو معلوم ہوگا کہ عاصمہ نے مر کر اپنے بدترین مخالفوں کو بھی تنہا کردیا۔ ملالہ یوسف زئی سے میر واعظ عمر فاروق تک ہی نہیں بلکہ تینوں بڑی پارٹیوں کے سربراہوں، اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری، وزیرِ اعظم اور چیف جسٹس سمیت اک طویل فہرست ہے جنھیں عاصمہ کی خدمات کا اعتراف کرنا پڑا۔
مزید پڑھیے: اداریہ: عاصمہ جہانگیر نہیں رہیں، مگر کام اب بھی باقی ہے
انہوں نے دہشت گردی کے مقدمات میں پکڑے جانے والوں کو بھی شفاف ٹرائل دینے کی بات کی اور فوجی عدالتوں کو اک برا فیصلہ کہا اور یوں انسانی حقوق پر اپنا مؤقف دوست و دشمن سب کے لیے ایک سا رکھا۔
مجھے یاد ہے جب ہم نے لاء کالج میں خون کے عطیات جمع کرنے کا کیمپ لگایا تو عاصمہ کلاس لے کر نیچے آرہی تھیں۔ میں اور میرے دوست انہیں کیمپ میں لے جانے کے لیے آئے تو عاصمہ نے آہستہ سے بتایا کہ وہ خون دیکھ نہیں سکتیں، اس سے ان کی طبیعت بگڑ جاتی ہے۔ وہ اندر سے کتنی نازک مزاج تھیں، شاید اس کا اندازہ ہر کسی کو نہیں۔
جسٹس جاوید اقبال نے اپنی کتاب میں اپنے والد علامہ اقبال کے متعلق بھی اک ایسا ہی واقعہ لکھا تھا کہ جب گڈیاں اڑاتے ہوئے جاوید کی انگلی ڈور پھرنے سے کٹ گئی تھی تو کٹی ہوئی انگلی سے بہتا خون دیکھ کر علامہ اقبال بے ہوش ہوگئے تھے۔ نزاکت اور جرات کے حسین امتزاج پر ہمارے ہاں کم کم بات ہوتی ہے۔
باہمت عاصمہ سے کچھ اختلافات کے باعث دوریاں ہوگئی تھیں مگر اس دوران چند بار جب جب ملاقات ہوئی تو وہ جس متانت سے ملیں، وہ انہی کا کمال تھا۔ مجھے یاد ہے جب لاہور میں پیپلز ٹو پیپلز ڈائیلاگ کے پہلے اجلاس میں میری بیگم میرے ایک سالہ بیٹے سارنگ کو لے کر آئیں، تو عاصمہ نے ملتے ہی پوچھا 'کیہہ عامر پتر نوں چکدا ہے؟' جواب ہاں میں سن کر عاصمہ کے چہرے پر اطمینان اور خوشی جھلکتی دیکھی۔ وہ عورتوں کے حقوق کی محض باتوں کی حد تک علمبردار نہ تھیں بلکہ مرد حاکمیت کے سماج میں ہر سطح پر عورتوں کی برابری کو ضروری قرار دیتی تھیں۔
12 فروری 1983 کو لاہور کے مال روڈ پر چند عورتوں نے ضیا شاہی کو جس طرح تاراج کیا تھا، اس پر ہماری سیاسی تاریخ میں بہت زیادہ نہیں لکھا گیا۔ اس دن چند عورتوں پر کیے جانے والے تشدد نے لوگوں کو بتا دیا تھا کہ ضیا کی بنائی خوفناک ریاست اندر سے کس قدر خوفزدہ ہے۔ وہ آخری دن تک برسر پیکار رہیں اور پاکستان کو حقیقی فلاحی ریاست بنانے کی قسم اٹھا کے راہی ملکِ عدم ہوئیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح عاصمہ بھی شبِ تار کو چیلنج کرنے کی زندہ علامت رہیں گی۔
عاصمہ کو عدلیہ کے بارے میں جو کچھ معلوم تھا، اور بطور سیاسی سماجی لیڈر کے جو کچھ انہوں نے مشاہدہ کیا، وہی طاقت تھی جس کی بنیاد پر انہیں عدلیہ کو حقیقی آزادی دلوانے کی فکر آخر دن تک رہی۔
پڑھیے: ’میں سسک سسک کر مرنا نہیں چاہتی‘
طلال چوہدری کی وکیل بننے کو وہ اس لیے تیار تھیں کیوں کہ انہیں عدالتی مداخلتوں پر شدید تحفظات تھے۔ وہ وکلا تحریک کے ہر اول دستے میں بوجہ شامل نہ تھیں۔اس بارے میں لکھنے سے بہت لوگ کنی کتراتے ہیں ۔ وکلا تحریک کے بعد تگڑی ہونے والی وکلا گردیوں اور 2008 کے بعد تسلسل سے آئے عدلیہ کے بعض فیصلوں نے ثابت کیا کہ عاصمہ کو اس تحریک سے جو تحفظات تھے وہ درست تھے۔
مشرف مخالفت اور جمہوریت کی بحالی میں وہ پیش پیش رہیں مگر ان کی نظر بڑھتی ہوئی انتہا پسندیوں پر برابر تھی۔ جو پروپیگنڈا عاصمہ کے خلاف کیا گیا آج اس کی کیا حیثیت ہے؟
وہ صحافی، سیاسی لیڈر، ریاست کے کل پرزے آج تنہا ہیں۔ عوامی سطح پر عاصمہ ہی پاکستانیوں کی وہ حقیقی آواز ہے جس کے ساتھ ریاست کھڑا ہونے سے ہمیشہ کتراتی رہی ہے۔ بلھے شاہ کے ہی الفاظ میں کہیں تو 'گور میں کوئی اور پڑا ہے، مگر عاصمہ امر ہوچکی ہے.'