• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

لودھراں میں شکست: وقت اب بھی عمران خان کے ہاتھ سے نکلا نہیں

شائع February 13, 2018 اپ ڈیٹ February 14, 2018

گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 154 میں تین بار انتخابات ہوئے اور تینوں ہی بار حلقے کے عوام نے مختلف فیصلے کیے۔

2013 کے عام انتخابات میں حلقے کے عوام نے آزاد امیدوار محمد صدیق خان بلوچ کو 86046 ووٹ دے کر جتوایا جو بعد میں مسلم لیگ ن میں شامل ہوگئے۔

عدالت کے فیصلے کے باعث یہ نشست خالی ہوگئی اور 2015 میں یہاں ضمنی انتخابات ہوئے جس میں تحریک انصاف کے امیدوار جہانگیر ترین 138719 ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہوگئے جبکہ 2018 کے ضمنی انتخابات میں عوام نے ن لیگ کے امیدوار سید اقبال شاہ نے 113542 ووٹ لے کر کامیاب کروایا۔

ایک قدر دونوں ضمنی انتخابات میں مشترک تھی کہ جب عدالت نے صدیق بلوچ کو ڈی سیٹ کردیا تو پھر حلقے کے عوام نے بھی 2015 کے ضمنی انتخابات میں صدیق بلوچ کو نمائندگی کے لیے اہل نہ سمجھا۔

پھر جب 2017 میں سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کو نااہل کردیا تو حلقے کے عوام نے ایک دفعہ پھر اپنی پرانی روایت کو دہراتے ہوئے عدلیہ نے جس کو نااہل کر دیا تھا، اس کے بیٹے کو بھی اپنے لیے اہل نہ سمجھا اور ن لیگ کے امیدوار سید اقبال شاہ کو جتوا دیا۔

پڑھیے: پاکستان مسلم لیگ (ن) نے لودھراں ضمنی انتخاب جیت لیا،غیرسرکاری نتیجہ

2013 کے عام انتخابات میں لودھراں کے عوام نے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے والے محمد صدیق خان بلوچ کو 86046 ووٹ دے کر کامیاب کروایا۔ دوسرے نمبر پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار جہانگیر ترین نے 75814 ووٹ لیے جبکہ تیسرے نمبر پر پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار سید محمد رفیع الدین نے 45406 ووٹ لیے۔

پیپلزپارٹی کے مرزا محمد ناصر نے 11155 ووٹ لیے اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیدوار ضیاء الرحمان نے 1590 ووٹ لیے جبکہ اس کے علاہ 16 امیدوار میدان میں تھے لیکن اس میں سے کسی نے 1000 سے زائد ووٹ نہیں لیے۔

2015 کے عام انتخابات میں جہانگیر ترین نے 138719 ووٹ لیے جو 2013 کے عام انتخابات کے مقابلے میں تقریباً 65 ہزار سے زائد تھے۔ دوسرے نمبر پر ن لیگ کے امیدوار محمد صدیق بلوچ آئے جنہوں نے 99933 ووٹ لیے۔

اب 2018 کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدوار نے 113542 ووٹ لیے جو 2015 کے ضمنی انتخابات کے مقابلے میں 14 ہزار زیادہ تھے، جبکہ اس کے برعکس علی ترین نے 85933 ووٹ لیے جو اپنے والد کے مقابلے میں 53ہزار سے کم تھے۔ آزاد امیدوار ملک محمد اظہر نے تقریباً 10 ہزار ووٹ لیے اور پیپلز پارٹی نے 3 ہزار ووٹ لیے۔

عمران خان اور تحریک انصاف کے تضادات ہی جیتی ہوئی نشست کی ہار کی وجہ بنے ہیں۔ عمران خان کی تحریکِ انصاف 2013 کے انتخابات میں ایک تیسری قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی تھی۔ 2013 کے عام انتخابات کے مہم کے دوران اور پھر اس کے بعد انتخابات میں دھاندلی اور کرپشن کے خلاف عمران اور تحریک انصاف نے بہت بڑی جدوجہد کی۔

اسی جدوجہد کے دوران حالات حاضرہ کے ٹی وی پروگرامز میں ملک کے مختلف مسائل پر بحث ہوتی رہی جس کی وجہ سے نہ صرف عوام کے سیاسی شعور میں اضافہ ہوا بلکہ ان کی سیاسی سوچ میں پختگی بھی آئی۔

عمران خان نے اپنی سیاسی زندگی میں تحریک انصاف سے متعلق ایک بیانیہ بنایا کہ تحریک انصاف ہی واحد جماعت ہے جو اس ملک سے موروثی سیاست، کرپشن اور اقرباء پروری کا خاتمہ کر سکتی ہے اور اداروں میں اصلاحات کر کے انہیں خود مختار بنا سکتی ہے جبکہ ملک کی دوسری تمام جماعتیں بدعنوان ہیں اور ملک کے مسائل کی وجہ ہیں، اس لیے یہ کام وہ سرانجام نہیں دے سکتیں۔

اسی جدوجہد کے دوران وہ اپنے ذاتی کارنامے بھی گنواتے رہے، "ورلڈ کپ جتوایا، شوکت خانم بنایا، نمل یونیورسٹی بنوائی، پوری دنیا میں میرا ایک نام تھا لیکن ملک کے حالات بدلنے کے لیے سیاست میں آیا، ورنہ میرے پاس عزت، شہرت اور دولت کی کوئی کمی نہ تھی۔"

مزید پڑھیے: ’جہانگیر ترین کی نااہلی کے باعث لودھراں میں پی ٹی آئی کو شکست ہوئی'

وہ اپنے متعلق لوگوں کا یہ تاثر اور تحریک انصاف سے متعلق بیانیہ بنانے میں کامیاب رہے۔ کوئی اور اس پر یقین کرتا یا نہ کرتا لیکن کم از کم اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کا اس حوالے ذہن بنانے میں کامیاب رہے لیکن بعد میں خود عمران خان کے بیانات اور طرزِ سیاست تحریک انصاف کے اس بیانیے سے متصادم رہی۔ لہٰذا 2015 میں 1 لاکھ 38 ہزار ووٹ لینے والی جماعت کے عام انتخابات سے صرف 4 ماہ پہلے 60 ہزار ووٹ کم ہو جانا بڑی معنی خیز بات ہے۔

عمران خان کا بیانیہ تھا کہ موروثی سیاست کو اس ملک سے ختم کریں گے لیکن پھر بھی جہانگیر ترین کے بیٹے کو ٹکٹ دیا، اور اوپر سے اس کا دفاع بھی کرتے رہے کہ یہ موروثی سیاست نہیں، بلکہ علی ترین کو ٹکٹ میرٹ کے بنیاد پر دیا گیا ہے۔

نوازشریف نااہل ہوئے تو سپریم کورٹ کے فیصلے پر خوشی منائی اور جب پارلیمنٹ نے قانون میں ترمیم کرکے نوازشریف کو پارٹی صدر بنانے کا راستہ ہموار کیا تو اس پر بڑی تنقید کی کہ نااہل شخص کیسے سیاست کرسکتا ہے کیسے پارٹی قیادت کرسکتا ہے، لیکن جب جہانگیر ترین نااہل ہوئے تو پارٹی کا عہدہ تو انہوں نے ضرور چھوڑ دیا لیکن وہ پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں سے الگ نہ ہوئے۔

سیاست میں اقرباء پروری کے خاتمے کی بات کی لیکن کے پی وزیر اعلیٰ کے رشتے داروں کا پارلیمان میں پہنچنا سب کو معلوم ہے، 90 دن میں کے پی سے کرپشن ختم کرنے کا دعویٰ کیا لیکن اب اسمبلیاں تحلیل ہونے میں تقریباً 90 دن رہ گئے ہیں، لیکن کے پی میں احتساب کمیشن ہی نہیں بنا۔

علی ترین کی شکست میں ان تمام وجوہات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

عمران خان جب سیاست میں سولوفلائٹ لیتے تھے تو اس وقت بعض سیاسی تجزیہ نگار اور پارٹی رہنماء اس بات پر عمران خان سے نالاں نظر آتے تھے لیکن عمران خان کا کھلے عام اس پر مؤقف یہ ہوتا تھا کہ سولو فلائٹ کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک کے تمام سیاسی جماعتیں چور اور کرپٹ ہیں، اور تحریک انصاف ہی واحد جماعت ہے جو اس ملک کی حقیقی نمائندگی کرے گی۔

ایک طرح سے عمران خان نے عوام کی سوچ تحریک انصاف بمقابلہ تمام جماعتیں بنائ تھی لیکن لاہور میں جب وہ طاہر القادری، زرداری اور ق لیگ کے ساتھ ایک ہی دھرنے میں شریک ہوگئے تو ان کے اس بیانیے کو نقصان پہنچا اور وہ اس دھرنے میں عوام کی کم تعداد میں شرکت سے بھی ثابت ہوا۔

لوگ یہ سوچنے لگے کہ جو لڑائی تمام جماعتیں بمقابلہ تحریک انصاف تھی، اب وہ تمام جماعتیں بمقابلہ نوازشریف ہے جس سے ن لیگ کو فائدہ ہوا۔ کرپشن کے خلاف تحریک چلانے کی بات کی لیکن اس تحریک کو صرف نواز شریف کے خاندان اور ن لیگ تک ہی محدود کر دیا۔

عمران خان اپنے ماضی کے سیاسی بیانات سے بھی نہ سیکھ سکے، اور جو غلطی کراچی کے ضمنی انتخابات میں ایم کیو ایم کے کارکنان کو زندہ لاشیں کہہ کر کی تھی، وہی غلطی الیکشن سے قبل پارلیمنٹ پر لعنت بیھج کر دہرائی، اور نتائج دونوں غلطیوں کے ایک جیسے نکلے۔

دوسری جانب نواز شریف نے عام انتخابات میں لوگوں سے کچھ وعدے کیے تھے کہ لوڈ شیڈنگ ختم کردیں گے، امن و امان ٹھیک کر دیں گے، ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیں گے، عوام انتخابات میں اس بنیاد پر محاسبہ کرتے لیکن سپریم کورٹ سے نااہلی کی وجہ سے ان کے ہاتھ میں 'مجھے کیوں نکالا' کا کارڈ آگیا اور چند ماہ کے دوران نوازشریف نے بھی ایک بیانیہ بنانے کی کوشش کی۔

ابتداء میں اس بیانیے پر بڑی حد تک لوگوں نے تنقید کی لیکن آہستہ آہستہ ملک میں پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال کی وجہ سے عوام نواز شریف کے اس بیانیے پریقین کرنے لگے۔

جانیے: سینیٹ انتخابات: تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے درمیان معاہدے کا امکان

عدلیہ کے فیصلے کو وہ اپنے خلاف ایک سازش قرار دینے لگے اور بعد میں عدلیہ کو اپنے اور دیگر رہنماؤں کے بیانات اور تقاریر کے ذریعے اشتعال دلاتے رہے کہ عدلیہ مزید ن لیگ کے خلاف فیصلے اور ریمارکس دے تاکہ وہ عوام کے سامنے اور مظلوم بن جائیں۔

نہال ہاشمی کا فیصلہ اور دانیال عزیز و طلال چوہدری کو نوٹسز قانون اور آئین کے مطابق درست ہوں گے، لیکن سیاسی طور پر ان کا فائدہ ن لیگ کو ہی مل رہا تھا، اور یہ نواز شریف اور ن لیگ کی حکمت عملی کا حصہ تھا، تب ہی تو نواز شریف نے پشاور کے جلسے میں نوٹسز ملنے کے بعد طلال چوہدری اور دانیال عزیز کے ہاتھ تھامے اور عوام کے سامنے اسٹیج پر کھڑے ہوگئے تھے۔

لیکن اسی اثناء میں عمران خان کے بار بار یہ بیانات کہ عوام عدلیہ کے پیچھے کھڑی ہے خود ان کے خلاف اور نواز شریف کے حق میں جارہے تھے۔ اسی طرح ن لیگ کے پنجاب میں شروع کیے گئے منصوبوں پر عمران خان پہلے تنقید کر رہے تھے اور بعد میں وہ منصوبے کے پی میں بھی شروع کیے جس سے ان کی سیاسی ویژن پر سوالات ٹھنا شروع ہوگئے۔

بلوچستان حکومت کی تبدیلی نے بھی عوام میں نوازشریف کے لیے نرم گوشہ پیدا کیا۔ عمران خان کو اپنی اس شکست پر افسردہ ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے مؤقف اور بیانیے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے جو 2013 کے انتخابات میں انہوں نے اپنایا تھا۔

ان کو یہ تاثر بھی ختم کرنا ہوگا کہ ان کی لڑائی فردِ واحد نواز شریف کے خلاف ہے۔ انہیں اپنی جنگ کو ملک کے تمام کرپٹ عناصر کے خلاف جنگ ہونے کا تاثر پیدا کرنا ہوگا اور اس کے لیے عملی اقدامات سے ان کو ظاہر کرنا ہوگا۔

ان کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ووٹ امیدواروں کو نہیں، بلکہ عمران خان کی سوچ کو پڑتا ہے، اس لیے اپنے اصولی بیانیے پر واپس آ کر حقیقی کارکن اور امیدوار جو تحریک انصاف کی سوچ و فکر کی عکاسی کر رہے ہوں، انہیں ٹکٹ دینے ہوں گے۔

اگر عمران خان اپنے پرانے بیانیے پر واپس آ گئے تو شاید ن لیگ کے مقابلے کی پوزشن میں آجائیں لیکن اگر ماضی قریب والی روش برقرار رہی تو عام انتخابات کے نتائج لودھراں کے نتائج سے مختلف نہ ہوں گے۔

وقت اب بھی عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔

امیر محمد خان

امیر محمد خان پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، جبکہ آپ سماجی و سیاسی امور میں خاص دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

Lion King Feb 13, 2018 05:37pm
Well said. Detailed Analyst. I second the opinion of writer.
Last Comment Feb 14, 2018 03:26pm
Good one and well explained
SADAF Feb 20, 2018 08:15pm
Acha kaam kia gaya hy
SADAF Feb 20, 2018 08:16pm
Nice work

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024