شام کی موجودہ صورتحال: ’اسرائیل اور ایران جنگ نہیں چاہتے‘
بیت المقدس: عسکری تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ گزشتہ ہفتے شامی فورسز کے ہاتھوں اسرائیلی جنگی طیارے کی تباہی کے نتیجے میں اسرائیل اور ایران میں کشدیدگی خطرناک حد تک طول پکڑے گی لیکن دونوں ممالک جنگ کے خواہاں نہیں۔
واضح رہے کہ رواں ماہ اسرائیل نے دعوٰی کیا تھا کہ شام کی حدود کے اندر سے پرواز بھرنے والے ایرانی ڈرون کو مار گرایا ہے بعدازاں اسرائیل نے شام کے اندر ایرانی بیس پر حملے کی غرض سے متعدد جنگی طیارے بھیجے لیکن شامی دفاعی فورسز کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں ایک اسرائیلی طیارہ گر کر تباہ ہو گیا تھا۔
یہ پڑھیں: شام میں کیمیائی حملوں کے پیچھے روس کا ہاتھ ہے، ریکس ٹیلرسن
اسرائیل کی جانب سے پہلی مرتبہ عوامی سطح پر اس بات کا اعلان کیا گیا کہ انہوں نے شام میں موجود ایرانی اہداف کو نشانہ بنایا جبکہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے عرب ممالک میں ایرانی فورسز کی موجودگی کے خطرے کو روکنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایرانی ڈرون کو ‘ملکی سلامتی کے لیے خطرہ’ قرار دیا تھا دوسری جانب ایرانی میڈیا نے اسرائیلی طیارے کو مار گرانے پر کہا کہ ‘شام کی فضائی حدود صیہونی طاقت کے لیے محفوظ نہیں رہی’۔
عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیل نہیں چاہتا کہ ‘ایران اگلا جنگی دروازہ کھولے اور خود ایران بھی جہاں ہے ادھر ہی محدود رہنا چاہتا ہے’۔
واضح رہے کہ شام کے صدر بشار اسد کو ایران، روس اور لیبنان کی اہل تشیع گروپ حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شامی فورسز نے اسرائیلی جنگی طیارہ مار گرایا
دوسری جانب شام محسوس کرتا ہے کہ ایران کی موجودگی سے خانہ جنگی میں برتری حاصل ہوئی ہے اور ساتھ ہی اسرائیل کی فضائی کارروائیاں بھی ختم ہو جائیں گی۔
ایران سے سیاسی تجزیہ کار مجتبیٰ موساوی کا کہنا تھا کہ ‘اسرائیلی طیارے کی تباہی شام اور اس کے اتحادیوں کے لیے نئی حکمت عملی کا باعث بنے گی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ایران شام کی مدد سے دستبردار نہیں ہوگا اور نہ ہی اسے اکیلا چھوڑے گا کیونکہ شام کی جغرافیائی حیثیت ایران کے لیے انتہائی اہم اور کلیدی ہے جبکہ دوسری جانب اسرائیل اور امریکا، ایران کی نقل و حرکت کو محدود رکھنے کا خواہاں ہیں’۔
مزید پڑھیں: کیا امریکا، شام میں اعلیٰ روسی فوجی افسران کی ہلاکت میں ملوث؟
اسرائیل اور ایران کے حوالے سے اقوام متحدہ سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹرز کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے ایک بیان میں کہا تھا کہ جنگ زدہ ملک شام میں اسرائیل کی جانب سے حملے خطرناک ہیں اور اس سے سرحد پار خطرے میں اضافہ ہوگا، لہٰذا فوری طور پر اس کا حل نکلنا چاہیے۔
خیال رہے کہ شام میں کئی سالوں سے مسلسل خانہ جنگی جاری ہے جس سے سب سے زیادہ معاشی شہر حلب متاثر ہوا۔
ڈھائی لاکھ سے زائد آبادی والے اس شہر میں مسلسل بمباری ہوتی رہتی ہے جبکہ روسی فوج نے شہر کے مشرقی حصے کو باغیوں سے واپس لے لیا تھا۔
شام کے اس شہر پر مکمل حکمرانی شامی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔
شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران صدر بشار الاسد کو روس جیسی عالمی طاقت کے علاوہ ایران، عراق، افغانستان کے علاوہ لبنان کی حزب اللہ کے جنگجوؤں کی مدد بھی حاصل ہے جبکہ ترکی کے کرد اور سعودی عرب سمیت کچھ خلیجی ریاستیں بشار الاسد کے خلاف ہیں۔
یاد رہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے شام کے لاکھوں لوگ اپنی زندگیاں بچا کر یورپ سمیت دنیا کے دیگر ممالک کی جانب سفر کرنے پر مجبور ہیں، اس وقت شامی مہاجرین کا مسئلہ عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔
یہ خبر 13 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں پڑھیں