پاکستان کی بلیو اکانومی اور امیر البحر کا شکوہ
امیر البحر (چیف آف نیول اسٹاف) ایڈمرل ظفر محمود عباسی کو اپنے عہدے کا چارج سنبھالے ہوئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے اور انہوں نے پاکستان کی سمندری حدود کی نگہبانی کے ساتھ ساتھ پاکستانیوں کو سمندری وسائل سے فائدہ پہنچانے کا بھی بیڑا اٹھا لیا ہے۔
اس حوالے سے ظفر محمود عباسی خاصے سرگرم بھی نظر آرہے ہیں جس کی واضح مثال یہ ہے کہ اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد وزیرِ اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کو پہلی ہی بریفنگ میں انہوں نے پاکستان کے سمندری وسائل اور اس سے وابستہ معاشی فوائد پر تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ اب وہ اپنے سمندری معاشی ایجنڈے یا بلیو اکانومی ایجنڈے کو عام کرنے کے لیے ایوانِ تجارت و صنعت کا دورہ کررہے ہیں۔ سب سے پہلے عباسی صاحب نے اسلام آباد ایوانِ تجارت و صنعت کا دورہ کیا جس کے بعد انہوں نے کراچی ایوانِ تجارت و صنعت میں بھی اپنا وژن پیش کیا۔ کراچی ایوانِ تجارت و صنعت میں جہاں انہوں نے سمندری معیشت سے متعلق اپنی کاروباری سرگرمیوں کا نقشہ پیش کیا وہیں بہت سے شکوے اور شکایت بھی کی۔
پڑھیے، تمر کے جنگلات اور کراچی کے ساحل کی ماحولیاتی موت
امیر البحر کا شکوہ ہے کہ پاکستان کے پاس سمندری حدود صوبہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے مجموعی رقبے سے بڑی ہے مگر اس پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ سمندر اور اس سے متعلق معیشت کو سیاسی حمایت بھی حاصل نہیں۔ لیکن جب سوال کیا گیا کہ وہ مطلوبہ سیاسی حمایت کیوں نہیں مل رہی ہے تو امیر البحر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاسی قوت طاقت ’جی ٹی روڈ‘، ’ہزارہ بیلٹ‘ اور سمندر سے دور کے علاقوں میں مرتکز ہے۔ بلوچستان کی ساحلی پٹی پر حب سے لے کر جیوانی تک قومی اسمبلی کی محض ایک ہی نشت اور کراچی میں بھی قومی اسمبلی کی 20 نشستیں ہیں۔ کراچی کی سیاسی قوت نے شہر کے لئے کچھ نہ کیا تو وہ بھلا سمندری معیشت کے لئے کیا کرتی؟ اس لئے پاکستان نے گزشتہ 70 سال میں ایک بڑے رقبے کے وسائل پر قبضہ میں ہونے کے باوجود اس سے فائدہ نہیں اٹھایا، اور آج بھی نہ صرف یہ کہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش اور دلچسپی نظر نہیں آرہی ہے بلکہ اِس حوالے سے کوئی سوچ بھی موجود نہیں ہے۔
چیف آف نیول اسٹاف کے مطابق پاکستان کی قومی قیادت سمندر سے متعلق اسی طرح لاعلم ہے جیسا کہ sea blindness syndrome۔ سیاسی سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے بیوروکریسی بھی سمندر سے متعلق امور پر توجہ اور اہمیت نہیں دیتی ہے اور اکثر معاملات بیوروکریسی کے سرخ فیتے کی نذر ہوجاتے ہیں۔
اب دیکھیں کہ جہاز رانی کی عالمی تنظیم نے پاکستانی سمندری حدود کو ہائی رسک سکیورٹی زون قرار دے دیا۔ اس ہائی رسک سکیورٹی زون میں ہونے کی وجہ سے پاکستان آنے والے تجارتی و بحری جہاز زیادہ کرایہ اور مہنگی انشورنس طلب کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے ہونے والی برآمدات اور پاکستان منگوائی جانے والی اشیاء پر اضافی انشورنس اور کرایہ ادا کیا جاتا ہے جوکہ اربوں ڈالر بنتا ہے۔ اسی طرح بعض جہاز راں کمپنیاں تو اسی وجہ سے کارگو پاکستان آنے کے بجائے پڑوسی یا قریب ترین بندرگاہوں پر چھوڑ جاتی ہیں۔ وہاں سے پاکستان ٹرانس شپمنٹ کرنا پڑتا ہے جس سے بھی اضافی لاگت آتی ہے۔
اب یہ کام تو وزارتِ بحری امور یا وزارتِ تجارت یا پھر وزارتِ خارجہ کا تھا کہ وہ پاکستان کی سمندری حدود کو ہائی رسک کے درجے سے نکلوائے مگر اس جانب توجہ دے تو کون دے؟ مرتا کیا نہ کرتا یہ کام بھی پاکستان بحریہ نے اپنے سر لے لیا اور سب سے پہلے پاکستان کو بحری قزاقی سے پاک علاقہ قرار دلوایا اور جہاز رانی کی عالمی تنظیم نے پاکستان کو تجویز کیا کہ بندرگاہوں کی سکیورٹی کے لئے خصوصی فورس قائم کی جائے جو اے ایس ایف کی طرز پر قائم کی جانی تھی۔ اس فورس کے قیام کے حوالے سے نیوی نے ایک سمری حکومت کو ارسال کردی ہے جوکہ کئی سال سے منظوری کی منتظر ہے۔
جانیے: یہ گوادر ویسا تو نہیں ہے ۔ ۔ ۔
پاکستان کے خصوصی معاشی زون میں اضافے کا معاملہ ہو یا خصوصی کانٹینینٹل شیلف، یہ کام بھی پاکستان نیوی کے کاندھوں پر ہی ڈال دیا گیا ہے۔ اس صورتحال میں اب بلیو اکانومی کا معاملہ نیوی لے کر جائے تو بھی کہاں لے کر جائے؟ نیوی کی سفارش پر وزارتِ پورٹ اینڈ شپنگ کا نام تو میری ٹائم افیئرز کردیا گیا مگر تاحال میری ٹائم کے حوالے سے معاملات 8 سے 9 وزارتوں کے ماتحت ہیں۔ امیر البحر کی پریشانی اس لئے بڑھ رہی ہے کہ وقت گزر رہا ہے اور اس حوالے سے تبدیلی اور اصلاحات پر کوئی تیار نہیں ہے۔ وزارتیں نہ تو خود کچھ کررہی ہیں اور نہ ہی سمندر کے حوالے سے اپنے پاس موجود اختیارات چھوڑنے کو تیار ہیں۔
حالت تو یہ ہے کہ پاکستان میں میری ٹائم افیئر پر پاکستان نیوی کے افسران کے علاوہ کوئی آزاد ماہر دستیاب ہی نہیں ہے۔ پاکستان میں اب تک سمندر سے متعلق کوئی سروے نہیں کیا گیا جس میں اندر موجود سمندری حیات اور سمندر کی تہہ میں موجود معدنیات اور تیل اور گیس کے حوالے سے کوئی جائزہ لیا جاسکے۔
پاک چین اقتصادی راہدری کے تحت چین نے پہلی مرتبہ ایک سائنسی مہم جوئی کا اہتمام کیا ہے جس کی مدد سے پاکستان اور چین کے سائنسدان مکران کی کوسٹل بیلٹ کی نقشہ سازی، معدنیات کے نمونے حاصل کرنے اور سمندری حیات سے متعلق معلومات کو جمع کریں گے اور اس سروے کو نہ صرف سائنسی تحقیق کے لیے استعمال کیا جائے گا بلکہ تیل و گیس کی تلاش سے متعلق کمپنیوں کو بھی اسٹڈی فراہم کی جائے گی۔ اس سائنسی مہم جوئی کے لئے فنڈنگ چین نے فراہم کی ہے۔ مگر اس میں 8 پاکستانی سائنسدانوں کو بھی شامل کیا ہے۔
امیر البحر نے شکوہ تو صرف سمندری معیشت پر توجہ نہ دینے اور اس حوالے سے کوئی ٹھوس اقدام نہ اٹھانے سے متعلق کی مگر حقیقت تو یہ بھی ہے کہ پاکستان میں نہ صرف سمندر کے معاشی فوائد کو نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ اس سے متعلق دفاع پر بھی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے۔ پاکستان میں نیوی کے زیرِ نگرانی ایک ہزار کلومیٹر طویل ساحلی پٹی اور ہزاروں کلو میٹر طویل خصوصی معاشی زون اور کانٹینینٹل شیلف کی حفاظت کے لئے بھی وسائل فراہم نہیں کیے جاتے اور صورتحال کچھ یہ ہے کہ دفاعی بجٹ کا محض 10 فی صد حصہ ہی پاکستان نیوی کو دستیاب ہوتا ہے۔ اسی طرح پاکستان نیوی کو اثاثوں کی فراہمی، پٹرولنگ کے وسائل اور دیگر شعبوں پر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، مگر امیر البحر نے اِن حوالوں سے شکوہ کرنے سے گریز ہی کیا۔
امیر البحر کی شکایات اور بلیو اکانومی کے ساتھ ہونے والے ناانصافی کو سمجھنے کے لیے بہت زیادہ علم یا سمندر کی گہرائی میں اترنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اگر آپ سی ویو، کیماڑی، بوٹ بیسن، نیٹی جیٹی، پورٹ قاسم اور کورنگی فش ہاربر پر خود بھی مشاہدہ کریں تو وہاں فضاء میں موجود بدبو آپ سے چیخ چیخ کر کہے گی کہ شہر بھر کا انسانی، صنعتی اور دیگر فضلہ کچرا براہِ راست سمندر میں ڈال کر ہم اس اہم ترین وسائل کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کررہے ہیں۔
پاکستان میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی کے ساتھ کھلے سمندر میں جانے کا اتفاق ہوا تو دیکھا کہ کچرا (سالڈ ویسٹ) سمندر میں کئی میل تک تیر رہا ہے۔ میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی کے سابقہ ڈی جی اور موجودہ چیئرمین کے پی ٹی ریئر ایڈمرل جمیل اختر کا کہنا ہے کہ جس سمندر کو چند سالوں میں گٹر میں تبدیل کردیا ہے وہاں کبھی پانی اس قدر صاف اور شفاف نظر آتا تھا کہ اگر پانی میں سکہ پھینکو تو بچے وہ سکہ سمندر کی تہہ سے ڈھونڈ لاتے تھے۔ پانی میں تیرتی خوبصورت مچھلیاں کئی کئی فٹ گہرائی تک صاف نظر آتی تھیں اور اکثر ڈولفین مچھلی بھی کراچی ہاربر میں دکھائی دیتی تھی، مگر اب گندگی اور بدبو کا یہ عالم ہے کہ سمندر کے قریب کھڑا بھی نہیں ہوا جاتا۔
مزید پڑھیے: پانی کا خیال رکھیے، کیونکہ یہ ہماری معیشت کا خیال رکھتا ہے
پاکستان نیوی کے مطابق سمندر میں یومیہ کی بنیادوں پر 6 کروڑ گیلن گندے پانی کے علاوہ تقریبا 8 ہزار ٹن سالڈ ویسٹ سمندر کی نظر کیا جاتا ہے۔ لیاری اور ملیر ندی کے علاوہ شہر بھر کی گندگی سے بھرپور کئی نالے براہ راست سمندر میں گر رہے ہیں اور ابراہیم حیدری پر کراچی سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا عملہ انتہائی انہماک کے ساتھ سمندر میں کچرا پھینکتا پایا جائے گا۔
دنیا بھر میں سمندر سے روزی حاصل کرنے والے افراد آسودہ حال ہوتے ہیں مگر کراچی اور پاکستان کی پوری ساحلی پٹی پر آباد ماہی گیروں کی حالت یہ ہے کہ وہ خطِ غربت سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور اس شہر کی معیشت کا دار و مدار سمندر پر ہے مگر اس کے باوجود اس شہر کے لوگ سمندری خوراک کے بجائے زمینی جانور کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
تمام تر شکووں اور شکایتوں کے باوجود چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل ظفر محمود عباسی کہتے ہیں کہ ان کی کوشش ہے کہ سمندری معیشت سے متعلق عوام، کاروباری برادری، اہلِ سیاست اور بیوروکریسی میں شعور اجاگر کرسکیں اور پاکستان میں میرین اکانومی کو جمپ اسٹارٹ کرسکیں۔ بقول ظفر محمود عباسی کہ اگر پاکستان نے سمندر سے متعلق صنعتوں کو فروغ دیا تو ملکی جی ڈی پی چند سال میں دگنا ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے توجہ، خلوص نیت، حوصلے اور علم کی ہے۔
بلیو اکانومی کیا ہے؟ پاکستان میں اس کا کیا مستقبل ہے اور دنیا بھر میں اس سے متعلق اقدامات پر آئندہ کے بلاگ میں تفصیل سے بات کی جائے گی۔
تبصرے (5) بند ہیں