کابل حملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہوئی، افغانستان کا دعویٰ
افغان حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کو کابل حملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں کیے جانے کی ناقابل تردید ثبوت فراہم کردیے ہیں۔
افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ محمد معصوم ستانکزئی کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ بات صاف ہے کہ کابل حملے کی منصوبہ بندی سرحد پار کی گئی تھی۔
اسلام آباد میں پاکستان کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کے ایک روز بعد ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان سے گزارش کی تھی کہ ملزمان کو ہمارے حوالے کیا جائے اور ہم نے حملے کی منصوبہ بندی سرحد پار کیے جانے کے حوالے سے مسترد نہ کیے جانے والے ثبوت بھی پاکستان کو فراہم کیے ہیں۔
افغان کے وزیر داخلہ وائز برمک کا کہنا تھا کہ افغان نے بدھ کے روز ہونے والے ایک گھنٹے طویل اجلاس میں پاکستان کو سوالات کی فہرست تھما دی ہے جس میں پاکستان سے پوچھا گیا ہے کہ وہ طالبان کے رہنماؤں اور ان کی سرزمین میں چلنے والے ٹریننگ سینٹرز کے خلاف کیا اقدامات کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: کابل میں فوجی اکیڈمی پر حملہ، 11 سیکیورٹی اہلکار ہلاک
رائٹرز نے افغان حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان نے دی گئی معلومات پر اقدامات کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن کابل میں موجود پاکستانی سفارت خانے نے ستانکزئی کی جانب سے دی گئی معلومات پر کہا ہے کہ ان معلومات کی تصدیق کی جائے گی۔
افغانستان کے خبر رساں ادارے طلوع نیوز کے مطابق پاکستان نے این ڈی ایس سربراہ محمد معصوم ستانکزئی کے اسلام آباد دورے کے دوران ان کی دی گئی معلومات پر جواب دینے کا کوئی وعدہ نہیں کیا ہے۔
خیال رہے کہ کابل میں اچانک حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور گزشتہ دنوں افغان دارالحکومت کے ریڈ زون میں ایمبولینس کے ذریعے ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں کم ازکم 95 افراد جاں بحق اور 158 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
29 جنوری کو کابل میں فوجی اکیڈمی مارشل فہیم ڈیفنس یونیورسٹی پر دہشتگردوں کے حملے میں افغان سیکیورٹی فورسز کے 11 اہلکار ہلاک اور16 زخمی ہوگئے جبکہ افغان حکام نے 2 حملہ آوروں کو بھی ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
یاد رہے کہ رواں ماہ 21 جنوری کو افغان داراحکومت کابل میں واقع انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں فوجی لباس میں ملبوس دہشت گردوں کے حملے میں 30 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان: ملٹری اکیڈمی میں خودکش دھماکا، 15 ہلاک
اس سے قبل گزشتہ برس اکتوبر میں کابل میں اسی فوجی اکیڈمی پر خود کش حملہ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں 15 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ستانکزئی کا کہنا تھا کہ ایسے حملوں میں ملوث طالبان خود کو سیاسی تنظیم کہلانے کے لائق نہیں بلکہ یہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ہم بات چیت نہیں کارروائی چاہتے ہیں۔
افغان حکام کا کہنا تھا کہ کچھ نئے شواہد گرفتار دہشت گردوں کے اعتراف سے سامنے آئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے پاکستان کو مطلع کردیا ہے کہ کچھ دہشت گردوں کو بلوچستان کے علاقے چمن میں مدرسوں میں ٹریننگ دی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: کابل کے ریڈ زون میں ایمبولینس دھماکا،95 افراد جاں بحق
قبل ازیں اقوام متحدہ میں افغانستان کے سفیر محمود سیکل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ 20 جنوری کو کابل کے انٹر کونٹینینٹل ہوٹل حملے میں ملوث ایک باغی کو چمن میں ٹریننگ دی گئی تھی۔
ستانکزئی کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس افغانستان کی قومی مفاد کے حفاظت کے لیے تمام آپشنز موجود ہیں۔
دوسری جانب کابل حملے کے بعد میں عوام نے غصے کا اظہار کیا۔
جمعرات کے روز پاکستانی سفارت خانے کے باہر کئی چھوٹے احتجاجی مظاہرے بھی سامنے آئے تھے۔
پاکستان کابل حملوں کی مذمت کرتا ہے
دفتر خارجہ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق وفاقی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کا دورہ کیا اور کابل میں حالیہ دہشت گردی کے حملوں پر تعزیت کا اظہار کیا۔
خواجہ آصف نے سفارت خانے میں تعزیتی کتاب پر دستخط کیے اور حملوں میں ضائع ہونے والی جانوں کے لیے فاتحہ خوانی کی۔
اس موقع پر وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان دہشت گردی کا شکار ہیں اور ہمیں اس مشترکہ خطرے سے مل کر نمٹنا ہوگا۔
یہ بھی دیکھیں: کابل حملہ: لوگوں نے کس طرح جانیں بچائیں؟
خواجہ آصف نے اعلیٰ سطح کے افغان وفد کا اسلام آباد کے دورے کے حوالے سے کہا کہ ملاقات میں دونوں ممالک نے مشترکہ بھروسے کو فروغ دینے کے لیے دو طرفہ اقدامات پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔
اعلامیے کے مطابق افغانی سفیر عمر زخیلوال نے وزیر خارجہ کی تعزیت کا شکریہ ادا کیا اور دو طرفہ تعلقات کی مضبوطی کے لیے زور دیا۔
تبصرے (1) بند ہیں