نقیب اللہ قتل کیس: ملزمان کے جسمانی ریمانڈ میں 6 فروری تک توسیع
کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ محسود قتل کیس میں گرفتار ملزمان کے جسمانی ریمانڈ میں 6 فروری تک کی توسیع کردی۔
پولیس نے اے ٹی سی کو بتایا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کے سامنے چھ میں سے تین ملزمان کو شناختی پریڈ میں شناخت کرلیا گیا اور دوران تفتیش ملزمان نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا۔
تفتیشی افسر کی جانب سے ملزمان سے مزید تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔
یہ پڑھیں: ’راؤ انوار کے خلاف محمد اسحٰق کے قتل کا مقدمہ بھی درج کیا جائے‘
اس حوالے سے متعلقہ عدالت نے پولیس کو ملزمان کے خلاف چالان پیش کرنے کا حکم بھی دے دیا۔
جس کے بعد عدالت نے نقیب اللہ محسود قتل میں نامزد ملزمان کے جسمانی ریمانڈ میں 6 فروری تک توسیع دے دی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز 31 جنوری کو نقیب اللہ محسود قتل کیس میں گرفتار 3 پولیس اہلکاروں کو واقعہ کے 2 عینی شاہدین نے جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کے روبرو شناخت کیا تھا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کے روبرو نقیب اللہ محسود قتل کیس میں گرفتار 3 پولیس اہلکاروں محمد اقبال، ارشد علی اور اللہ یار کو پیش کیا گیا جبکہ واقعے کے 2 گواہان قاسم اور حضرت علی بھی پیش ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے انٹیلی جنس اداروں سے مدد طلب
دوسری جانب حکومت سندھ نے کراچی میں نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل اور دہشتگردی کیس میں مفرور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سمیت انٹیلی جنس اداروں سے مدد مانگ لی۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے نقیب اللہ قتل کا از خود نوٹس لیا تھا جس پر سندھ پولیس کی تین رکنی کمیٹی نے 15 صفحات پر مشتمل تفصیلی رپورٹ پیش کی جس میں انکشاف کیا کہ نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا۔
نقیب اللہ قتل کیس سے متعلق تاریخی حوالہ یہ ہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔
پولیس نے دعویٰ کیا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔
ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔
مزید پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: انوسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع
تاہم اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازعہ بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔
بعد ازاں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ معاملہ اٹھا تھا جس کے بعد وزیر داخلہ سندھ اور بلاول بھٹو نے واقعے کا نوٹس لیا تھا اور تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
تحقیقات کے حکم کے بعد ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں ایک تفتیشی کمیٹی بنائی گئی تھی، جس میں ڈی آئی جی شرقی اور ڈی آئی جی جنوبی بھی شامل تھے۔
ابتدائی طور پر راؤ انورا اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے اور بیان ریکارڈ کرایا تھا، تاہم اس دوران آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے احکامات کی روشنی میں انہیں معطل کردیا گیا تھا۔