• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

زرداری ہاؤس پر چھاپہ مارا جائے تو شاید راؤ انوار مل جائیں، عابد شیر علی

شائع February 1, 2018

پاکستان مسلم لیگ ( ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر عابد شیر علی نے دعویٰ کیا ہے کہ زرداری ہاؤس پر چھاپہ مارا جائے تو شاید معطل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار مل جائیں گے۔

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے الزام لگایا کہ راؤ انوار قاتل اور ڈاکو ہیں اور انہوں نے بے گناہ نوجوان کو قتل کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آنے والے انتخابات میں گندگی کو صاف کیا جائے گا، پیپلزپارٹی نے جو کرپشن کی اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ان سب کا احتساب کیا جائے گا۔

عابد شیر علی نے الزام لگایا کہ پیپلز پارٹی نے ایان علی کے ذریعے سندھ کے عوام کے پیسے ملک سے باہر بھیجے اور وقت آگیا ہے کہ لوگ ان لوگوں کے خلاف علم بلند کریں۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: انوسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع

خیال رہے کہ معطل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پر کراچی میں نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کا الزام ہے جبکہ وہ مفرور ہیں۔

اس حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے بھی ان کی گرفتاری کےلیے آئی جی سندھ کو 3 دن کی مہلت دی تھی جو 30 جنوری کو ختم ہوگئی تھی۔

یاد رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

تاہم اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازعہ بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

بعد ازاں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ معاملہ اٹھا تھا جس کے بعد وزیر داخلہ سندھ اور بلاول بھٹو نے واقعے کا نوٹس لیا تھا اور تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

تحقیقات کے حکم کے بعد ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں ایک تفتیشی کمیٹی بنائی گئی تھی، جس میں ڈی آئی جی شرقی اور ڈی آئی جی جنوبی بھی شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ کیس: گرفتار 3 پولیس اہلکاروں کو 2 چشم دید گواہوں نے شناخت کرلیا

ابتدائی طور پر راؤ انورا اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے اور بیان ریکارڈ کرایا تھا، تاہم اس دوران آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے احکامات کی روشنی میں انہیں معطل کردیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے نقیب اللہ قتل کا از خود نوٹس لیا جس پر سندھ پولیس کی تین رکنی کمیٹی نے 15 صفحات پر مشتمل تفصیلی رپورٹ پیش کی جس میں انکشاف کیا کہ نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024