سینیٹ انتخابات کا گورکھ دھندا! کون فائدے اور کون نقصان میں؟
الیکشن کمیشن کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے رسمی شیڈول جاری کرنے سے قبل غیر رسمی شیڈول کے اجراء نے کئی سوالات اٹھا دیے ہیں، لیکن ایک بات بہرحال ماننی پڑے گی کہ سینیٹ الیکشن کے غیر رسمی شیڈول جاری کرنے کے اقدام سے اسمبلیاں توڑنے کی باتیں کرنے اور سازشی تھیوریاں دینے والے بھی سیاسی جوڑ توڑ میں پڑگئے ہیں۔
وہ ایک خاص تاریخ یعنی 31 جنوری بھی گزر گئی جس کے بعد اسمبلیوں سے استعفے دے بھی دیے جائیں تو خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کی آئینی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی کیونکہ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی آئینی مدت 31 مئی تک ختم ہورہی ہے اور نئی آئینی ترمیم کے مطابق اس مدت سے 120 دن قبل خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات کرائے جاسکتے ہیں۔
تو کیا ہم پھر اس سازشی تھیوری پر ایمان لے آئیں کہ کہیں نہ کہیں یہ سوچ موجود تھی کہ 31 جنوری کے بعد اسمبلیاں توڑدی جائیں تو ایک تیر سے دو شکار کیے جاسکتے ہیں۔ ایک تو شیڈول کے باقاعدہ اجراء سے قبل یہ قدم اٹھانے سے سینیٹ الیکشن کو التواء میں ڈالا جاسکتا ہے اور دوسرا 31 جنوری کی مقررہ مدت گزر جانے کے بعد اسمبلیاں توڑنے کے اقدام سے نہ صرف ضمنی انتخابات سے بچا جاسکتا ہے بلکہ حکومت پر قبل از وقت عام انتخابات کے لیے دباؤ بھی بڑھایا جاسکتا ہے۔
پڑھیے: سینیٹ انتخابات 3 مارچ کو متوقع
سوال مگر پھر بھی یہی پیدا ہوتا ہے کہ آئینی ضرورت کے تحت سینیٹ شیڈول کا باقاعدہ اور رسمی اجراء تو فروری کے پہلے ہفتے میں ہونا تھا، لیکن ایسا کیا ہوا کے الیکشن کمیشن کو غیر روایتی طور پر ایک پریس ریلیز جاری کرکے پانچ دن قبل ہی یہ بتانا پڑا کہ سینیٹ انتخابات کا باقاعدہ شیڈول 2 فروری کو جاری ہوگا؟ 29 جنوری کو جاری کی گئی الیکن کمیشن کی اس پریس ریلیز کو سینیٹ الیکشن کے شیڈول کا غیر رسمی اجراء مانا جا رہا ہے۔
واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ سینیٹ شیڈول کے باقاعدہ اجراء سے 5 روز قبل غیر رسمی طور پر الیکشن کمیشن کی جانب سے شیڈول کا جاری کیا جانا ایک طرح سے حفظ ماتقدم کے طور پر بھی تھا تاکہ فروری کے پہلے ہفتے میں صوبائی اسمبلیوں کو توڑنے یا استعفی دینے کی سازشی تھیوریوں اور ایسے کسی بھی ممکنہ ایڈونچر کا توڑ کیا جاسکے اور ویسے بھی اب سینیٹ الیکشن کے شیڈول کے اجراء کے بعد اسمبلیاں توڑنے کے اقدام کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
ایسی صورت میں سیاسی تجزیہ نگاروں اور ماہرین کی روزی روٹی اسی میں ہے کہ سر جھٹک کر سیںیٹ انتخابات کے طریقہءِ کار اور اس کے ممکنہ نتائج پر روشنی ڈالیں کیونکہ جولائی 2018ء میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل 3 مارچ 2018ء کو ہونے والے سینیٹ انتخابات اور اس کے نتائج مستقبل کے سیاسی سیٹ اپ میں انتہائی اہمیت کے حامل ہوں گے۔
قانون کے مطابق سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری اور ترجیحی ووٹ کی بنیاد پر منعقد کیے جاتے ہیں جس کی گنتی کا طریقہءِ کار مشکل اور توجہ طلب ہے۔
سمجھںے کی بات کچھ یوں ہے کہ چاروں صوبائی اسمبلیاں تو سیںیٹ انتخابات کا الیکٹورل کالج ہیں اور چاروں صوبوں کے صوبائی کوٹے سے آنے والے سینیٹرز اپنے اپنے صوبے کی اسمبلی کے ارکان کے ووٹوں ہی سے منتخب ہوں گے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ فاٹا کے سینیٹرز کا انتخاب، قومی اسمبلی میں موجود فاٹا کے 12 ارکان کریں گے جبکہ اسلام آباد کے سینیٹرز کا انتخاب پوری قومی اسمبلی کے ارکان کریں گے۔
ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے اجزائے ترکیبی کچھ یوں ہیں کہ 104 ارکان کے اس ایوان میں چاروں صوبوں سے کل 23 ارکان ہیں۔ جن میں سے 14 عمومی ارکان، 4 خواتین، 4 ٹیکنوکریٹ اور 1 اقلیتی رکن ہے۔ فاٹا سے 8 عمومی ارکان سینیٹ کا حصہ ہیں۔ اسلام آباد سے کل 4 ارکان ہیں جن میں سے 2 عمومی جبکہ ایک خاتون اور 1 ہی ٹیکنوکریٹ رکن ہے۔
سینیٹرز کی آئینی مدت 6 برس ہے اور ہر 3 برس بعد سینیٹ کے آدھے ارکان اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوتے ہیں اور آدھے ارکان نئے منتخب ہوکر آتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی سینیٹ کی آدھی یعنی 52 نشستوں پر انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ سندھ اور پنجاب سے 12 سینیٹرز کا انتخاب ہوگا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے 11 سینیٹرز منتخب ہونگے جبکہ فاٹا سے 4 اور اسلام آباد سے 2 ارکان ایوان بالا کا حصہ بنیں گے۔
پڑھیے: انتخابی ترمیمی بل 2017 سینیٹ سے متفقہ طور پر منظور
پنجاب
پنجاب اسمبلی کی کل نشستیں 371 جبکہ موجودہ ارکان کی تعداد 367 ہے۔ سینیٹ انتخابات کے وضع کردہ فارمولے کے مطابق پنجاب اسمبلی سے سینیٹ کی ایک جنرل نشست کے حصول کے لیے ساڑھے 52 ووٹ لینا ضروری ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ نواز کے 309، تحریک انصاف کے 30، پیپلز پارٹی کے 8، مسلم لیگ ق کے 8، آزاد 5، مسلم لیگ ضیاء کے 3 ارکان جبکہ پاکستان نیشنل مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جمیعت علمائے اسلام، اور بہاولپور نیشنل عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن ہے۔
سندھ
سندھ اسمبلی کی کل نشستیں 168 ہیں جبکہ موجودہ ارکان کی تعداد 167 ہے۔ فارمولے کے تحت سندھ اسمبلی سے سینیٹ کی ایک جنرل نشست کے حصول کے لیے 24 ووٹ لینے ضروری ہیں۔
سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے 95، ایم کیوایم کے 50، مسلم لیگ فنکشنل کے 9، مسلم لیگ نواز کے 7، تحریک انصاف کے 4 ارکان جبکہ نیشنل پیپلز پارٹی کا 1 اور 1 آزاد رکن ہے۔
خیبرپختوا
خیبر پختونخوا اسمبلی کی کل نشستیں 124 ہیں جبکہ موجودہ ارکان کی تعداد 123 ہے۔ خیبر پختونخواہ اسمبلی سے سینیٹ کی ایک جنرل نشست کے حصول کے لیے ساڑھے 17 ووٹ لازم ہیں۔
خیبر پختوںخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کے 61، نواز لیگ کے 16، جمعیت علمائے اسلام کے 16، قومی وطن پارٹی کے 10، جماعت اسلامی کے7، پیپلز پارٹی کے 6، عوامی نیشنل پارٹی کے 5 ارکان ہیں جبکہ 2 آزاد رکن اسمبلی ہیں۔
بلوچستان
بلوچستان اسمبلی کی کل نشستیں اور موجودہ ارکان کی تعداد 65 ہے۔ بلوچستان اسمبلی سے سینیٹ کی ایک جنرل نشست کے حصول کے لیے 9 ووٹ ضروری ہیں۔
بلوچستان اسمبلی میں نواز لیگ کے 21، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 14، نیشنل پارٹی کے 11، جمیعت علمائے اسلام کے 8، ق لیگ کے 5، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے 2 ارکان ہیں، جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، مجلس وحدت المسلمین، عوامی نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن ہے اور ایک آزاد رکن ہے۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ سینیٹ کی ایک عمومی نشست کے لیے تو پنجاب سے ساڑھے 52، سندھ سے 24، خیبر پختوںخواہ سے ساڑھے 17 اور بلوچستان سے 9 ووٹ لینا لازم ہیں مگر ٹیکنوکریٹ، خواتین اور اقلیتی نشست کے لیے امیدواروں کو ڈالے گئے کل ووٹوں میں سے اکثریتی ووٹ جاصل کرنے ہوں گے۔
پڑھیے: ’سینیٹ انتخابات وقت پر ہونا مشکل‘
پاکستان پیپلز پارٹی
زمینی صورتحال، اعداد و شمار اور سیاسی تجزیے کے گھوڑے دوڑائیں تو ایوانِ بالا میں اِس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی 26 نشستیں ہیں۔ ان کے 18 سینیٹرز ریٹائر ہورہے ہیں جبکہ مجوزہ فارمولے کی روشنی میں پیپلز پارٹی کے بظاہر 8 نئے سینیٹرز ایوان کا حصہ بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نواز
پاکستان مسلم لیگ نواز کی سینیٹ میں 27 نشستیں ہیں۔ 9 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے جبکہ وہ آسانی سے اپنے 18 نئے سینیٹرز منتخب کرانے کی پوزیشن میں ہے۔ آزاد سینیٹرز کی 10 نشستیں ہیں۔ 5 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے جبکہ 5 ہی نئے منتخب ہونے کا امکان ہے۔
متحدہ قومی مومنٹ
متحدہ قومی مومنٹ کی 8 نشستیں ہیں۔ 4 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے اور بظاہر 4 نئے آنے کا امکان ہے۔
پاکستان تحریک انصاف
سینیٹ میں پاکستان تحریک انصاف کی 7 نشستیں ہیں۔ 1 سینیٹر ریٹائر ہوگا اور اگر کوئی انہونی نہ ہوئی تو تحریک انصاف 6 نئے سینیٹرز لاسکتی ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی
عوامی نیشنل پارٹی کی 6 نشستیں ہیں۔ 5 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے 1 سینیٹر نیا منتخب ہونے کا امکان ہے۔
جمیعت علمائے اسلام (ف)
جمیعت علمائے اسلام (ف) کی 5 نشستیں ہیں۔ 3 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے، 2 نئے منتخب ہوسکتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ق)
پاکستان مسلم لیگ (ق) کی 4 نشستیں ہیں اور چاروں سینیٹرز ریٹائر ہور ہے ہیں۔ اس سیاسی جماعت کا کوئی نیا سینیٹر آنے کا امکان نہیں۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی 3 نشستیں ہیں۔ کوئی سینیٹر ریٹائر نہیں ہو رہا جبکہ 3 نئے سینیٹرز منتخب ہوسکتے ہیں۔
نیشنل پارٹی
نیشنل پارٹی کی 3 نشستیں ہیں۔ اس جماعت کا بھی کوئی سینیٹر ریٹائر نہیں ہونے جارہا۔ یہ جماعت بھی بظاہر 3 نئے سینیٹرز لاسکتی ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی
بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کی 2 نشستیں ہیں اور دونوں سینیٹرز ریٹائر ہو رہے ہیں۔ یہ جماعت بھی بظاہر کوئی نیا سینیٹر لانے کی پوزیشن میں نہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی سینیٹ میں 1 نشست ہے۔ کوئی سینیٹر ریٹائر نہیں ہو رہا۔ یہ جماعت بظاہر 1 نیا سینیٹر لانے کی پوزیشن میں ہے۔
جماعت اسلامی
جماعت اسلامی کی 1 نشست ہے۔ کوئی سینیٹر ریٹائر نہیں ہو رہا۔ جماعت اسلامی کا ایک 1 نیا سینیٹر منتخب ہوسکتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ فنکشنل
پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کا ایوان میں 1 سینیٹر ہے جو ریٹائر ہوجائے گا۔ یہ جماعت بھی بظاہر نیا سینیٹر منتخب کرانے کی پوزیشن میں نظر نہیں آرہی۔
پڑھیے: الیکشن کے بعد سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی طاقت کو خطرات لاحق
مارچ 2018ء کے بعد ایوانِ بالا کو سیاسی دوربین سے دیکھا جائے تو 104 نشستوں کے ایوان میں پاکستان مسلم لیگ نواز 36 ارکان کے ساتھ پہلے، پاکستان پیپلز پارٹی 16 ارکان کے ساتھ دوسرے جبکہ پاکستان تحریک انصاف 12 ارکان کے ساتھ تیسرے نمبر پر نظر آتی ہے۔
آئندہ ایوان بالا میں آزاد سینیٹرز کی تعداد 10، ایم کیوایم کے سینیٹرز کی تعداد 8، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹرز کی تعداد 6 اور نیشنل پارٹی کے سینیٹرز کی تعداد بھی 6 ہوسکتی ہے۔
مستقبل کے سینیٹ میں جمیعت علمائے اسلام 4 جبکہ جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی دو دو نشستیں حاصل کرسکتی ہیں۔
اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کی روشنی میں پاکستان مسلم لیگ ق، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کی نمائندگی سینیٹ سے ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
موجودہ ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی، موجودہ ایوان بالا یعنی سینیٹ کی پہلی بڑی سیاسی جماعت ہے اور گزرے 3 سے 4 برسوں میں پارلیمنٹ میں ہونے والے ہر اہم قانون سازی میں پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی اکثریتی اور حکومتی سیاسی جماعت مسلم لیگ نواز کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں بھی واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد حکمران جماعت مسلم لیگ نواز، اپنے آئینی اقتدار کی مدت کے آخری اڑھائی ماہ میں سیاسی حریفوں کو کیا آئینی سرپرائز دیتی ہے۔