کابل کے ریڈ زون میں ایمبولینس دھماکا،95 افراد جاں بحق
افغانستان کے دارالحکومت کابل کے ریڈ زون میں ایمبولینس کے ذریعے ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں کم ازکم 95 افراد جاں بحق اور 158 سے زائد زخمی ہوگئے۔
افغان وزارت صحت کے ترجمان وحید مجروح کا کہنا تھا کہ 'دھماکے میں اب تک ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 95 تک پہنچ گئی ہے اور 158 افراد زخمی ہیں'۔
سرکاری میڈیا سینٹر کے ڈائریکٹر باریالئی ہلالی نے اس سے قبل ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے میڈیا کو آگاہ کیا تھا کہ 'دھماکے میں جاں بحق افراد کی تعداد 63 اور زخمیوں کی تعداد 151 تک پہنچ گئی ہے'۔
انھوں نے ہسپتال میں موجود چند زخمیوں کی حالت کو خطرناک قرار دیتے ہوئے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک ایمبولینس سوار نے خود کو کابل کے ریڈ زون میں پُر ہجوم علاقے میں دھماکے سے اڑا لیا۔
کابل میں گزشتہ سال 31 مئی کو ہونے والے کاربم دھماکے کے بعد ریڈ زون میں ایک ایسی جگہ دہشت گرد واقعہ پیش آیا ہے جہاں یورپین یونین سمیت کئی غیرملکی اور عالمی اداروں کے دفاتر قائم ہیں۔
دھماکا اس قدر شدید تھا کہ جائے وقوعہ سے کم از کم دو کلومیٹر دور واقع عمارات بھی ہچکولے کھانے لگیں اور شیشے ٹوٹ کر دور دور تک اس کے ٹکڑے پھیل گئے۔
ریسکیو اور سیکیورٹی اہلکار فوری طور پر جائے وقوع پہنچے اور لاشوں اور زخمیوں کو قریبی ہسپتال منتقل کیا گیا۔
قبل ازیں افغان وزارتِ صحت کے ترجمان وحید مجروح نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ اس حملے میں 40 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 140 زخمی ہیں جبکہ ہلاکتوں میں اضافے کا بھی خدشہ ہے۔
مزید پڑھیں: کابل میں ’خودکش‘ دھماکا، 18 افراد ہلاک
افغان وزارتِ داخلہ کے نائب ترجمان نصرت رحیمی نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آور نے اپنے مذموم مقصد کے لیے ایمبولینس کا استعمال کیا اور جب اسے پہلی چیک پوسٹ پر روکا گیا تو اس نے سیکیورٹی اہلکاروں کو بتایا کہ وہ مریض کو ہسپتال لے کر جارہا ہے جبکہ دوسری چیک پوسٹ پر اسے روکنے کی کوشش کی گئی تو اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
طلوع نیوز کے مطابق دھماکا وزارت داخلہ کی پرانی عمارت کے قریب دو چیک پوائنٹس کے درمیان ہوا جبکہ اس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کرلی۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ دھماکا گزشتہ برس مئی میں ہونے ٹرک بم دھماکے کے بعد اس نوعیت کا دوسرا دھماکا ہے۔
یاد رہے کہ رواں ماہ 21 جنوری کو افغان داراحکومت کابل میں واقع انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں فوجی لباس میں ملبوس دہشت گردوں کے حملے میں 30 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس 31 مئی 2017 کو کابل کے ریڈ زون میں جرمن سفارت خانے کے قریب کار بم دھماکے میں ایک رپورٹ کے مطابق 150 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جس کو کابل شہر کی تاریخ کا خونی ترین حملہ قرار دیا گیا تھا۔
دھماکا کابل میں اس مقام پر ہوا تھا جہاں متعدد ممالک کے سفارت خانے، سرکاری دفاتر اور اعلیٰ حکومتی شخصیات کی رہائش گاہیں قائم ہیں۔
قبل 31 جنوری 2017 کو افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار میں سابق گورنر کے جنازے میں خودکش حملے کے نتیجے میں 15 شہری جاں بحق اور 14 زخمی ہوگئے تھے۔
خیال رہے کہ 28 دسمبر 2017 کو کابل کے ثقافتی مرکز میں خودکش دھماکوں کے نتیجے میں 40 افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
یاد رہے کہ افغانستان میں سال 2017 کو 2001 سے امریکا کی مداخلت کے بعد سب سے زیادہ قتل و غارت کے طور پر ریکارڈ کیا گیا تھا اور یہ سلسلہ 2018 میں بھی جاری ہے۔
پاکستان کی مذمت
پاکستان کی جانب سے کابل کے ریڈ زون میں ہونے والے دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
دفتر خارجہ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 'دہشت گرد واقعے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر ہم گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہیں جہاں اطلاعات کے مطابق کئی افراد زخمی بھی ہوئے ہیں'۔
واقعے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے بیان میں کہا گیا ہے کہ 'پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی شدید مذمت کرتا ہے'۔
دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ریاستوں کے مابین موثر تعاون اور کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔