’ماورائے عدالت قتل‘ ازخود نوٹس: 15 صفحات پر مشتمل تفصیلی رپورٹ تیار
کراچی: سندھ پولیس نے شاہ لطیف ٹاؤن میں جعلی مقابلے کے دوران نقیب اللہ محسود کے قتل پر سپریم کورٹ کی جانب سے واقعے سے متعلق لیے گئے از خود نوٹس کے سلسلے میں 15 صفحات پر مشتمل تفصیلی رپورٹ تیار کرلی ہے۔
تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے 15صفحات پر مشتمل رپورٹ سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں آج پیش کیے جانے کا امکان ہے۔
پولیس نے اپنی رپورٹ میں آگاہ کیا ہے کہ تفتیش ایس ایس پی انویسٹی گیشن زون ٹو عابد قائمخانی کے سپرد کی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق انکوائری کمیٹی نے ملیر کے معطل سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار کو جعلی مقابلے میں ملوث پایا ہے۔
مزید پڑھیں: نقیب قتل کیس: راؤ انوار کے خلاف ایف آئی آر درج
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ نقیب اللہ محسود کو جعلی مقابلے میں مارا گیا، جائے وقوع سے پولیس کے خود کار ہتھیار کے 26 خول ملے جبکہ پولیس کے دعوؤں کے برعکس چاروں افراد پر پولیس نے یکطرفہ گولیاں چلائیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ نقیب اللہ اور اس کے تین دوستوں کو 3 جنوری کو حراست میں لیا گیا تھا تاہم نقیب اللہ کے دوستوں علی اور قاسم کو بھاری رشوت کے عوض 6 جنوری کو رہا کردیا گیا تھا۔
رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا کہ پولیس کال کوٹھڑی میں رکھے گئے افراد کو مقابلے میں ماردیتی تھی جبکہ نجی عقوبت خانے میں کئی اور افراد کو بھی قید رکھا گیا۔
رپورٹ کے مطابق جیل میں قید قاری احسان نے راؤ انوار کے الزامات کی تردید کردی ہے اور بتایا ہے کہ انہوں نے جس نقیب اللہ کی بات کی تھی وہ مقابلے میں ہلاک ہونے والا شخص نہیں ہے۔
گزشتہ روز سندھ پولیس نے شاہ لطیف ٹاؤن میں جعلی مقابلے کے دوران نقیب اللہ محسود کے قتل کیس کی ابتدائی رپورٹ انسداد دہشت گردی کی منتظم عدالت میں پیش کی تھی، جس کے مطابق انکوائری کمیٹی نے ملیر کے معطل سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار کو جعلی مقابلے میں ملوث پایا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’ماورائے عدالت قتل‘ ازخود نوٹس کیس: راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم
عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق نقیب اللہ کے والد کی مدعیت میں راؤ انوار اور دیگر کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا جبکہ راؤ انوار اور دیگر ملزمان کی تلاش جاری ہے۔
رپورٹ کے مطابق نقیب اللہ اور اس کے تین دوستوں کو 3 جنوری کو حراست میں لیا گیا تھا تاہم نقیب کے دوستوں علی اور قاسم کو 6 جنوری کو رہا کردیا گیا تھا۔
نقیب اللہ کا قتل
یاد رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔
پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔
ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔
تاہم اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازعہ بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے نقیب اللہ کے ’ماورائے عدالت قتل‘ کا نوٹس لے لیا
بعد ازاں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ معاملہ اٹھا تھا جس کے بعد وزیر داخلہ سندھ اور بلاول بھٹو نے واقعے کا نوٹس لیا تھا اور تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
تحقیقات کے حکم کے بعد ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں ایک تفتیشی کمیٹی بنائی گئی تھی، جس میں ڈی آئی جی شرقی اور ڈی آئی جی جنوبی بھی شامل تھے۔
ابتدائی طور پر راؤ انورا اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے اور بیان ریکارڈ کرایا تھا، تاہم اس دوران آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے احکامات کی روشنی میں انہیں معطل کردیا گیا تھا۔