رنی کوٹ: جیتی جاگتی دیوارِ سندھ
رنی کوٹ قلعے کی مزید تصاویر دیکھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔
یونیسکو دیوار سندھ کے طور پر مشہور رنی کوٹ کو عالمی ورثہ قرار دینے کی تجویز رکھتا ہے مگر دنیا کا سب سے بڑا قلعہ حکومت کی لاپروائی اور اہلکاروں کی کوتاہی کی وجہ سے لاوارثی کی جیتی جاگتی تصویر بنا ہوا ہے۔
گزشتہ ہفتے اس عظیم ورثے کا دورہ کرنے کے موقعہ ملا، لیکن چند چونکا دینے والے حقائق سامنے آئے۔ سیاحوں کے لیے نہ کوئی گائیڈ اور نہ پینے کے پانی کی سہولت نہ بیٹھنے کی جگہ موجود ہے۔
انڈس ہائی وے پر مشہور مقام سن سے جنوب مغرب میں کھیرتھر پہاڑی سلسلے کے کارو جبل میں یہ قلعہ واقع ہے۔
آثارقدیمہ کے ماہرین کے مطابق رنی کوٹ سوا بیس کلومیٹرپر پھیلا ہوا ہے دنیا کے ان قلعوں میں سے ہے جن کو ابھی تک ٹھیک سے ایکسپلور نہیں کیا گیا۔ قلعہ تک رسائی کے لیے سن سے تیس کلومیٹرپختہ سڑک موجود ہے۔
ساسانیوں کا یہ تعمیر کردہ قلعہ فن تعمیر کا نمونہ ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ کے کئی ادوار اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہے۔ قبل مسیح کے دور کے بعد عربوں کی فتح کا زمانہ، مغل دور اور تالپور دور میں بھی وقت کے حکمرانوں کے زیر استعمال رہاہے۔رنی کوٹ قلعے کے اندر میری کوٹ اور شیر گڑھ کے نام سے دو اور قلعے ہیں۔ ان دونوں چھوٹے قلعوں کے دروازے رنی کوٹ کے دروازوں جیسے ہیں۔ فوجی نکتۂ نگاہ سے میری کوٹ محفوظ پناہ گاہ ہے۔ جہاں رہائشی حصہ زنان خانہ، کچھ فوج کے رکھنے کا بندوبست بھی ہے۔
اس تاریخی مقام سے کئی تاریخی واقعات منسوب ہیں جن میں سے بیشتر پر ابھی مستند تحقیق ہونا باقی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس قلعہ کے اندر مختلف مقامات سے کئی دیومالائی کہانیاں بھی منسوب ہیں۔ قلعے کے اندر مغربی حصے سے پھوٹنے والا چشمہ ہے جس کو پریوں کا چشمہ کہتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پونم رات یعنی چاند کی 14 تاریخ کو یہاں پریاں نہانے آتی ہیں۔
صدیوں پرانے اس تاریخی مقام کے لیے محکمہ آثار قدیمہ خواہ سیاحت کی جانب سے کوئی بندوبست نہیں۔ بلکہ کوئی ایک ملازم بھی مقرر نہیں جو اس قلعہ کی حفاظت تو دور کی بات نظرداری کرے۔
قلعہ اب محکمہ ثقافت کے ماتحت ہے مگر یہ محکمہ بھی اس کی وارثی نہیں کر رہا۔اتنے بڑے ورثے کی رکھوالی کے لیے محکمے کے پاس ایک بھی ملازم نہیں ہے اور یہ لاوارث بنا ہوا ہے۔ جب محکمہ آثار قدیمہ وفاقی حکومت کے ماتحت تھا تب ایک چوکیدار مقرر تھا۔ اس کے ریٹائر ہونے کے بعد کسی کو بطور چوکیدار مقرر نہیں کیا گیا۔قلعہ کا دورہ کرنے کے دوران ایسا لگ رہا تھا کہ محکمہ ثقافت کی نہ اس تاریخی مقام سے دلچسپی ہے اور نہ کوئی افسریہاں آتا ہے۔
مختلف دیواریں جو پہلے ہی خستہ اور زبون حالت میں تھیں ان کو گزشتہ دو سال کی بارشوں نے مزید زبوں حال کردیا ہے۔ میری کوٹ، شیر گڑھ اور خود اصل قلعہ کی جنوبی دیوار بہت کمزور ہو چکی ہے جو کہ پوری توجہ سے مسلسل مرمت کی طلبگار ہیں۔
وزیٹرز کے لیے کوئی سہولت نہیں۔ سیاحوں کے لیے کوئی گائیڈ موجود نہیں۔ کوئی شیڈ ہے نہ بیٹھنے کی جگہ اور نہ ہی واش روم وغیرہ کی سہولت ہے۔ 80 کے عشرے میں میری کوٹ میں ضلع کونسل نے ریسٹ ہاؤس تعمیر کیا تھا، جو اب زبون حال ہے، اس کی چھت گر چکی ہے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ اس کے باوجود درجنوں سیاح آتے ہیں۔
رنی کوٹ کے اندر حکومت نے میری کوٹ تک پختہ سڑک تعمیر کرائی تھی۔ یہ روڈ تو ٹوٹ چکا ہے مگر اس پر دو پُلیں جو برساتی نالے کو کراس کرتی ہیں دس سال سے زیر تعمیر ہیں، اور باقی 80 یا 85 فٹ تعمیر باقی ہے جہاں پر یہ کام روک دیا گیا ہے۔
مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ ٹھیکیدار اور حکومت کے درمیان تنازع کے بعد معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ نہ عدالت سے فیصلہ آرہا ہے۔ نہ حکومت کوئی پیشرفت کر کے معاملے کو نمٹا رہی ہے۔
قلعہ کے اندرناجائز تجاوزات ہونے لگی ہیں۔مقامی آبادی ٹریکٹر گھما کر سائٹ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ میری کوٹ کے قریب زیر تعمیر پل کے پاس بدھ دور کی سائٹ پر دو کمرے تعمیر کئے جارہے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں پر ایک مقامی باثر شخص ہوٹل تعمیر کرنا چاہ رہا ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ سیاحت کے فروغ کے لیے محکمہ کسی کو 500 فٹ زمین بھی دینے کے لیے تیار نہیں مگر غیرقانونی طور پر لوگ کئی ایکڑ پر قبضہ کر رہے ہیں۔
میری کوٹ سے مغرب میں گبول قبیلے کا ایک گاؤں قلعے کے اندر واقعہ ہے۔ یہ لوگ یہاں پر چھوٹی موٹی کاشکاری بھی کرتے ہیں۔
میں نے نئے سال کے سندھ بجٹ کے صفحے پلٹ کے دیکھا مگرسالانہ ترقیاتی پروگرام میں رنی کوٹ کا نام تک نہیں تھا۔حالانکہ صوبے میں تین محکمے ثقافت، قومی ورثہ اور سیاحت ایک جیسا ایجنڈا لیے کام کر رہے ہیں۔ لیکن ان محکموں کے ذمہ داران کو رنی کوٹ نظر نہیں آتا۔
تبصرے (8) بند ہیں