طلب سے تین گنا زیادہ بجلی پیدا کرنے والا چترال پاور پراجیکٹ فعال
لاہور: چترال میں 108 میگا واٹ گولین ہائیڈل پاور پراجیکٹ کے پہلے یونٹ سے آزمائشی بنیادوں پربجلی کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جو آئندہ ماہ سے باقاعدہ طور پر سسٹم میں شامل ہوجائے گا۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ماہِ فروری کے پہلے ہفتے میں اس منصوبے کا باقاعدہ افتتاح کریں گے۔
واٹر اینڈ پاور ڈولمپنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے مطابق 29 ارب کی لاگت سے تیار منصوبے سے پہلے مرحلے میں 36 میگا واٹ بجلی فراہم کی جائے گی بعدِازاں دیگر یونٹس سے پیدا ہونے والی بجلی طلب سے تین گنا زیادہ ہوجائے گی۔
یہ پڑھیں: جنجیریت: اپنی تاریخ سے انکاری چترال کی دلکش وادی
واضح رہے کہ واپڈا نے پہلی بار اپنے مالیاتی اخراجات میں منصوبہ تعمیر کیا اور اضافی بجلی کو قومی سسٹم میں شامل کیا جائے گا۔
واپڈا کے چیئرمین جنرل (ر) مزمل حسین نے ڈان کو بتایا کہ ‘بلعموم قوم اور بلخصوص مقامی شہریوں کے لیے بڑے فخر کا مرحلہ ہے کہ چترال میں موجودہ طلب سے دوگنا زیادہ بجلی کی فراہمی ہو سکے گی جو کہ 20 میگا واٹ ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ چترل، اپر چترال، دورش میں شہریوں نے پہلی بار بجلی کی روشنی میں اپنا دن گزارا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘چترل، اپرچترل اور دورش میں بالترتیب 7، 4 اور 8 میگا واٹ بجلی کی طلب ہے تاہم اب ہمارے پاس 36 میگا واٹ ہے’۔
یہ بھی پڑھیں: چترال کی لڑکیوں میں خودکشی کا بڑھتا ہوا رحجان
چیئرمین واپڈا نے مذکورہ منصوبے کی تکمیکل کو سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ چترال اور اس کے متصل علاقوں میں بجلی کی مستقل فراہمی ایک غیر معمولی کامیابی ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ 36 میگا واٹ کا دوسرا یونٹ مارچ جبکہ تیسرا اور آخری یونٹ مئی میں فعال ہو کر بجلی کی پیداوار کا آغاز کر دے گا جو قومی سسٹم کو فراہم کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: 'وادی چترال میں افغان لٹیرے'
اس موقع پر انہوں نے پشاور الیکڑک سپلائی کمپنی اور خیبرپختونخوا انرجی ڈولپمنٹ بورڈ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ادارے پاور ڈسٹریبیویشن سسٹم کو بہتر بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے۔
شندور ٹائمز کے مطابق پراجیکٹ ڈائریکٹر انجینئر جاوید آفریدی نے بتایا کہ ‘منگل کی صبح جوٹی لشٹ گرڈ اسٹیشن تک بجلی پہنچائی گئی اور سہ پہر تک مختلف ٹیسٹنگ کے بعد اسے پیسکو کی مقامی لائن کو دی گئی اور شہر کے مختلف علاقوں کو یکے بعد دیگرے بجلی دی جارہی ہے اور یہ سلسلہ دروش تک جاری رہے گا’۔
یہ خبر 25 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
تبصرے (1) بند ہیں