نقیب محسود کیس میں کچھ نہیں ہوگا، وائس چیئرپرسن ایچ آر سی پی
اسلام آباد: انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) کے وائس چیئرپرسن اسد اقبال بٹ کا کہنا ہے کہ اس وقت حکومت سندھ کی جو باڈی لینگوج ہے اور سابق ایس ایس پی راؤ انوار جس انداز میں پیش آرہے ہیں اس سے یہی لگ رہا ہے کہ نقیب اللہ محسود کیس میں کچھ بھی نہیں ہوگا۔
ڈان نیوز کے پروگرام ’نیوز وائز‘ میں بات کرتے ہوئے اسد اقبال بٹ نے کہا کہ ’اس کیس میں کچھ نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس ٹیم نے یہ پولیس مقابلہ کیا، راؤ انوار نے اس ٹیم میں اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب پولیس میں سیاسی بھرتیاں کی جائیں گی اور پولیس میں پسندیدہ لوگوں کے سر پر سیاسی افراد کا ہاتھ ہوگا تو پھر یہی سب کچھ ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’راؤ انوار نہ تو قومی کمیشن برائے انسانی حقوق اور نہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اے ڈی خواجہ کے سامنے پیش ہو رہے ہیں، کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اور ان کی پشت پناہی کرنے والے افراد اتنے طاقتور ہیں کہ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔‘
مزید پڑھیں: 'ماورائے عدالت قتل': معطل راؤ انوار آئی جی سندھ کے سامنے پیش نہیں ہوئے
وائس چیئرپرسن ایچ آر سی پی نے کہا کہ ’عجیب بات یہ ہے کہ اس طرح کے کیسز میں لوگوں کو معطل یا ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے، لیکن کچھ عرصے بعد وہ اپنے عہدے پر واپس آجاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’راؤ انوار کے خلاف نہ صرف محکمہ جاتی کارروائی ہونی چاہیے بلکہ ان کے خلاف کیس کا اندراج بھی ہونا چاہیے اور انہیں عدالت میں بھی پیش کیا جانا چاہیے، یہی ایک طریقہ ہے جس کی مدد سے ہم ماورائے عدالت قتل کے کیسوں میں کمی لا سکتے ہیں۔‘
اسد اقبال بٹ نے کہا کہ ’اس طرح کے کیسوں میں عام طور پر پولیس والے اپنے پیٹی بند بھائیوں کی مدد کرتے ہوئے کیس میں خامیاں پیدا کرتے ہیں جس کا ملزم کو فائدہ ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عدالت خود تفتیش نہیں کرتی بلکہ تفتیش کے بعد جو کاغذات پیش کیے جاتے ہیں ان کی روشنی میں فیصلہ کرتی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ کو ’جعلی انکاؤنٹر‘ میں مارا گیا، تحقیقاتی کمیٹی کا انکشاف
ان کا کہنا تھا کہ ’نقیب اللہ محسود کے کیس میں تفتیشی افسران اچھا ریکارڈ رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ راؤ انوار ان کے سامنے پیش نہیں ہو رہے۔‘
واضح رہے کہ کراچی میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسود کی مبینہ طور پر پولیس مقابلے میں ہلاکت میں ملوث ہونے پر معطل ملیر کے سابق ایس ایس پی راؤ انوار آئی جی پولیس اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے سامنے پیش نہیں ہوئے تھے۔
گزشتہ روز ایس پی انویسٹی گیشن شرقی 2 عابد قائم خانی کی جانب سے راؤ انوار کو نقیب اللہ کے معاملے میں تحقیقات کے لیے 22 جنوری کو سینٹرل پولیس آفس طلب کیا گیا تھا اور اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا تھا۔
دوسری جانب راؤ انوار نے معاملے کی تفتیش کرنے والی انکوائری ٹیم کے دو ارکان کو ان کے خلاف 'ذاتی طور پر جانب دار' ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے تفتیش کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: راؤ انوار نے پولیس کی انکوائری کمیٹی کا بائیکاٹ کردیا
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے سابق ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ انہوں یہ فیصلہ اس لیے کیا کہ انکوائری ٹیم میں موجود دو ارکان مبینہ طور پر ان کے خلاف 'ذاتی طور پر جانب دار' ہیں اور انہیں واقعے کے حوالے سے پوچھے بغیر کیس میں ملوث کردیا گیا۔
اس سے قبل آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی جانب راؤ انوار کو ایس ایس پی کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔