الیکشن کے بعد سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی طاقت کو خطرات لاحق
اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ق) کے تمام 4 سینیٹرز کی مدت مارچ میں مکمل ہورہی ہے، جس کے بعد مسلم لیگ (ق) کو سینیٹ انتخابات میں اپنی بقاء کی جنگ لڑنا ہوگی۔
قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں مسلم لیگ (ق) کی حالیہ پوزیشن سے واضح ہوتا ہے کہ وہ سینیٹ میں ایک نشست بھی حاصل نہیں کر سکے گی تاہم سیاسی ناقدین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے سیاسی منظر نامے پر حالیہ پیش رفت کے بعد صوبائی نشست پر ایک سے دو نشستیں حاصل ہو سکتی ہیں۔
یہ پڑھیں: سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں چوہے کی انٹری
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سینیٹ چیئرمین رضا ربانی، قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن، پارلیمانی رہنما تاج حیدر، پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر سمیت 18 ارکان کی مدت مارچ میں مکمل ہو رہی ہے جبکہ پی پی پی کے سینٹرز کی مجموعی تعداد 26 ہے۔
واضح رہے کہ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل ہے اس لیے رضا ربانی اور تاج حیدر دوبارہ سینیٹ کی نشستوں پر منتخب ہو سکتے ہیں تاہم پنجاب اور خیبرپختونخوا میں دیگر سیاسی پارٹیوں سے جوڑ توڑ کے بغیر اعتزاز احسن اور فرحت اللہ بابر کے لیے ایوان بالا میں جگہ کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔
اس ضمن میں حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 27 میں سے 9 سینیٹ ارکان رواں برس ریٹائر ہوں گے جن میں خود ساختہ جلاوطنی کاٹنے والے سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار بھی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’سینیٹ انتخابات وقت پر ہونا مشکل‘
بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) اور پاکستان مسلم لیگ (ف) سینیٹ میں نمائندگی کا حق کھوبیٹھیں گی، بلوچستان عوامی پارٹی کے چیف اسرار اللہ زہری اور مسلم لیگ (ف) کے سینیٹر مظفر حسین شاہ اپنی 6 برس کی مدت پوری کر چکے ہیں۔
اس حوالے سے کہا جارہا ہے کہ بلوچستان اور سندھ اسمبلی میں دونوں پارٹیوں کی پوزیشن کی بنیاد پر سینیٹ انتخابات میں ترجمانی کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
مسلم لیگ (ق) کے چار سینیٹرز پارلیمانی لیڈر سعید الحسن (بلوچستان)، پارٹی لیڈر مشاہد حسین سید (اسلام آباد)، کامل علی آغاہ (پنجاب) اور روبینہ عرفان (بلوچستان) مارچ میں ریٹائر ہوجائیں گے۔
تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ سینیٹر مشاہد حسین سید کو مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ سے دوبارہ اسلام آباد میں ٹیکنوکریٹ کی نشست مل سکتی ہے اور اس ضمن میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں سے مذاکرات آخری مراحل میں ہیں۔
مزید پڑھیں: قدرتی گیس پر وفاق کے کنٹرول سے سینیٹرز ناخوش
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے 6 میں سے 5 سینیٹرز رواں برس ریٹائر ہو رہے ہیں جس سے پارٹی کو ایوان بالا میں غیر معمولی نقصان پہنچے گا، ریٹائر ہونے والوں میں الیاس احمد بلور، شاہی سید، باز محمد خان، داؤد اچکزئی اور زاہدہ خان شامل ہیں۔
خیبرپختونخوا میں سینیٹ کی نشست پر اے این پی کی تنہا خاتون سینیٹر ستارہ ایاز 2021 میں ریٹائر ہوں گی۔
ایوان بالا سے ریٹائر ہونے والے کل 52 ارکان میں سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) کے 8 میں سے 4 سینیٹرز بھی مارچ میں ریٹائر ہو رہے ہیں، ان میں طاہر حسین، نصرین جلیل، ڈاکٹر نسیم اور مولانا تنویر الحق شامل ہیں۔
جمیعت علما اسلام (ف) کے پانچ میں سے 3 سینیٹرز حافظ حمد اللہ، مفتی عبدالصد ستار اور طلحہ ریٹائر ہوں جائیں گے۔
اس حوالے پڑھیں: 'بلوچستان کے سیاسی بحران کا اثر سینیٹ انتخابات پر نہیں ہوگا'
دوسری جانب مارچ ہی میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے ایم اے پی) اور نیشنل پارٹی (این پی)، بی این پی مینگل اور جماعت اسلامی (جے آئی) سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز ریٹائر نہیں ہوں گے۔
اس کے علاوہ آزاد امیدواروں میں 10 میں سے پانچ سینیٹرز بھی ریٹائر ہوجائیں گے۔
واضح رہے کہ ایوانِ بالا 104 سینیٹرز پر مشتمل ہوتا ہے جس میں چاروں صوبوں سے 92، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) سے 8، اسلام آباد سے 4 نشستیں ہوتی ہیں۔
صوبے کی سطح پر کل 23 نشستیوں میں سے 14 جنرل، 4 خواتین جبکہ ایک اقلیت اور 4 ٹیکنوکریٹ کے لیے ہوتی ہیں۔
ایوان بالا میں سینیٹرز کی نشست 6 سال کی مدت پر محیط ہوتی ہے اور تقریباً ہر تیسرے سال 50 فیصد سینیٹرز ریٹائر ہوتے ہیں اور پھر خالی نشستوں پر نئے سینیٹرز کے لیے انتخابات کرائے جاتے ہیں۔
یہ خبر 22 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی