امریکی حکومت کا ملک میں ’شٹ ڈاؤن‘ کا اعلان
ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت کا ایک سال مکمل ہونے کا جشن حکومت کے شٹ ڈاؤن کے ساتھ منایا جبکہ ساتھ ہی ڈیموکریٹس پر امریکیوں کو اپنے مطالبات کے ذریعے یرغمال بنانے کا بھی الزام لگا دیا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق عارضی اخراجات پر اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث امریکی حکومت نے جمعہ کو رات گئے سے شٹ ڈاؤن کا اعلان کیا۔
شٹ ڈاؤن کے دوران پبلک سیکٹر کے ورکرز کو بغیر اجرت کے گھر بھیج دیا جائے گا حتیٰ کہ امریکی فوجیوں کو بھی حکومتی سرگرمیاں بحال ہونے تک رقوم کی ادائیگی نہیں کی جائے گی، تاہم فوجی سرگرمیاں اور ضروری سروسز اس دوران بحال رہیں گی۔
شٹ ڈاؤن روکنے کے لیے امریکی ایوان نمائندگان میں عارضی اخراجات کا بل منظور کرلیا گیا تھا، تاہم سینیٹ میں ہونے والی رائے شماری میں ٹرمپ انتظامیہ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
امریکی حکومت کو بل پاس کرانے کے لیے 60 ووٹ درکار تھے لیکن سینٹ میں عارضی اخراجات پر ہونے والی ووٹنگ میں بل کے حق میں 50 اور مخالفت میں 49 ووٹ ڈالے گئے، جس کے بعد باضابطہ طور پر شٹ ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی شٹ ڈاؤن: کانگریس کو اقدام کرنا ہوگا، اوباما
سینیٹ میں بل پر رائے شماری سے قبل ایوان بالا میں ڈیموکریٹک پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اور اقلیتی رہنما چَک شومر نے ڈونلڈ ٹرمپ سے طویل ملاقات کی تھی، تاہم اس ملاقات میں کسی بات پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا تھا۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ ان لاکھوں نوجوان تارکین وطن کو تحفظ دینے کے حق میں ہیں جنہیں ٹرمپ انتظامیہ غیر قانونی قرار دے کر ان کے خلاف سخت رویہ اپنائے ہوئے ہے۔
سینیٹ میں بل مسترد ہونے کے بعد وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں ’شٹ ڈاؤن‘ کا ذمہ دار چک شومر کو قرار دیا گیا۔
واضح رہے کہ 1990 سے اب تک امریکا میں چار حکومتی شٹ ڈاؤن ہو چکے ہیں۔
2013 میں اوباما دور میں ہونے والے آخری شٹ ڈاؤن میں 8 لاکھ سے زائد حکومتی ملازمین کو عارضی چھٹیوں پر بھیج دیا گیا تھا۔