راؤ انوار آغاز سے انجام تک!
ایک خوبرو نوجوان کی گولیوں سے چھلنی اوندھی پڑی لاش نے مُلک کے مختلف حصوں کے عوام میں بے چینی پیدا کردی ہے۔ نقیب اللہ محسود کو پولیس مقابلے میں مارے جانے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر غیر معمولی ردِعمل دیکھا گیا اور یہ آواز شدت کے ساتھ اُٹھائی گئی کہ کب تک یونہی نوجوانوں کو عدالت میں پیش کیے جانے کے بجائے خود ہی منصف ہونے کا اعلان کیا جاتا رہے گا؟
اِس ایک نکتے پر سوشل میڈیا پر آواز اُٹھنی شروع ہوئی جو اِس قدر شدت اختیار کرگئی کہ مین اسٹریم میڈیا بھی اِس آواز میں اپنی آواز ملانے پر مجبور ہوگیا۔ جس کے بعد عوام سڑکوں پر نکل آئے اور مُلک کے ایوانوں میں بھی نقیب اللہ کے قتل پر احتجاجی صدا بلند ہونے لگی۔ عوامی مزاحمت اِس قدر شدت اختیار کرگئی کہ قبائلی علاقوں اور کراچی کے مختلف علاقوں میں جلاؤ گھیراؤ شروع ہوگیا۔ اربابِ اختیار کو ہوش آیا، انکوائری کمیٹیاں بنیں، اور کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں ہی نقیب اللہ محسود کے حوالے سے کیے گئے راؤ انوار کے دعوؤں کی صداقت پر سوالات اٹھائے۔
جعلی مقابلوں میں میں پہلی بار راؤ انوار کا نام سامنے نہیں، ایسے پولیس مقابلوں کی ایک طویل تاریخ ہے، راؤ انوار کی پولیس میں ملازمت کا جائزہ لیا جائے تو وہ 1981 میں ایس پی ہاربر کے پاس بطور کلرک بھرتی ہوئے تھے، وہی ایسی پی ہاربر جسے ایس پی کیماڑی بھی کہا جاتا تھا، جبکہ 1982ء میں ہی اُن کی بطور اے ایس آئی تعیناتی ہوگئی۔
پڑھیے: ’نقیب اللہ محسود کے معاملے پر جلد اہم پیش رفت متوقع’
ساتھی اہلکار بتاتے ہیں کہ راؤ انوار ترقی کے خواہشمند تھے اور اِس راستے میں جائز و ناجائز کے قائل نہیں تھے۔ وہ مختلف تھانوں میں ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے اور مختلف محکموں میں اپنے تبادلے بھی کرواتے رہے۔ اِن سب سرگرمیوں کا مقصد مقتدر حلقوں کی نظر میں آنا تھا۔ پھر بتدریج انہوں نے اہم شخصیات سے رابطے استوار کیے، جن میں معروف گلوگارہ نورجہاں بھی شامل ہیں۔ انہوں نے راؤ انوار کو مُنہ بولا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ اپنی اِسی عادت کے سبب راؤ انوار نے غیر معمولی طور پر جلد ترقی حاصل کی اور اے ایس آئی سے سب انسپکٹر بنائے جانے کے ساتھ اُنہیں بطور ایس ایچ او نارتھ ناظم آباد بھی تعینات کردیا گیا۔
راؤ انوار کے ساتھی افسران کے مطابق اُسی عرصے کے دوران پیپلز اسٹوڈنٹ فیڈریشن سے تعلق رکھنے والے کچھ لڑکوں کی گرفتاری ہوئی اور پیپلز پارٹی دورِ حکومت میں اُن لڑکوں کی رہائی کے لیے راؤ انوار اور حکومت میں معاملات چلتے رہے، جس کے بعد راؤ انوار سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے منظور نظر ہوگئے۔ اُس کے بعد تو جیسے راؤ انوار کے کیرئیر کو پَر لگ گئے۔ یہی وہ دور تھا جب حکومت میں شامل اہم شخصیات کے ساتھ راؤ انوار کے رابطے قائم ہوئے، جس کے بعد اُن کی ترقی کا سفر مزید تیز ہوگیا۔
ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے کہنے پر نصیر اللہ بابر نے راؤ انوار پر خصوصی نظرِ کرم کی، جس کے بعد راؤ انوار نے کراچی میں مقابلوں کی بھرمار کردی۔ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے فاروق دادا اور بانی متحدہ قومی موومنٹ کے بھتیجوں کے مقابلے میں مارے جانے کا الزام بھی راؤ انوار کے سر ہی آتا رہا۔ سینئر افسران کے مطابق ایم کیو ایم کے کارکنوں پر تشدد میں بطور دھمکی ‘چیرا لگانا‘ ایک بھیانک طریقہ مانا جاتا تھا، جس کے موجد بھی یہی سمجھے جاتے ہیں۔ اِن مقابلوں کے بعد راؤ انوار کو ترقی ملتی رہی اور وہ بدستور سب انسپکٹر اور پھر انسپکٹر کے عہدے تک جا پہنچے۔
پڑھیے: 'جعلی پولیس مقابلے'پر راؤ انوار کیخلاف مقدمےکاحکم
جب ایم کیو ایم برسرِ اقتدار آئی تو کراچی آپریشن میں شامل افسران کے قتلِ عام کا سلسلہ شروع ہوا۔ 196 افسران مارے گئے اور اُس آپریشن میں شامل صرف 2 افسران بچے جن میں سے ایک ’راؤ انوار‘ اور دوسرے ’سرور کمانڈو‘ ہیں۔
راؤ انوار کے اربابِ اختیار سے مضبوط روابط کا اندازہ اِس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مبیّنہ مقابلوں سے ترقیاں پانے کے باوجود سندھ پولیس کا یہ افسر مُلک بھر میں تعیناتیاں حاصل کرتا رہا۔ ملتان ہو یا سیٹلائٹ ٹاؤن کوئٹہ، راؤ انوار کُرسی پر بیٹھے دکھائی دیتے رہے۔ ایم کیو ایم کے دورِ حکومت میں راؤ انوار کو جان بچانے کے لیے کراچی چھوڑنا پڑا تو سندھ پولیس کے افسر نے جان کے خوف سے اسلام آباد میں پناہ حاصل کی۔ اسلام آباد میں طویل عرصہ رہنے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو راؤ انوار دوبارہ کراچی میں وارد ہوئے اور بطور ڈی ایس پی گڈاپ تعیناتی حاصل کرلی۔
ملیر میں تعیناتی کے حوالے سے بھی سندھ پولیس کے اندرونی حلقوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ اُن کی تعیناتی سندھ کی ایک مقتدر ترین فرد سے قربت کا نتیجہ تھی۔ ملیر سے ہٹنا پڑا تو جیکسن تعیناتی کروائی، مگر کچھ عرصے بعد پھر واپس ملیر آگئے۔ گزشتہ 10 سال سے ملیر تعیناتی کے دوران متعدد بار اُن پر جعلی مقابلوں، زمینوں پر قبضوں، بھتہ خوری، ریتی بجری کی چوری جیسے الزامات لگ چکے ہیں۔ راؤ انوار کو 4 مرتبہ اُن کے عہدوں سے ہٹایا گیا جس میں سے 2 مرتبہ سندھ ہائی کورٹ کے حُکم پر اور 2 مرتبہ سپریم کورٹ کے حکم پر ہٹایا گیا۔ مگر چند دن بعد راؤ انوار دوبارہ تعیناتی حاصل کرکے اپنے عہدے پر موجود ہوتے تھے، جس سے یہ قیاس حقیقت معلوم ہوتا ہے کہ اعلیٰ عدالتیں بھی راؤ انوار کے خلاف تحقیقات نہ کراسکیں۔
راؤ انوار کا نام اُس وقت زیادہ منظرِ عام پر آیا جب مبیّنہ مقابلوں میں مارے جانے والے نوجوانوں کے اہلِ خانہ نے اُن کو جعلی قرار دے کر عدالت سے رجوع کیا۔ فروری 2011 میں نوجوان انیس سومرو کے قتل کے الزام میں عدالت نے راؤ انوار کو اُن کے عہدے سے ہٹا دیا اور عدالتی تحقیقات کا حُکم دیا۔ انیس سومرو کے والد اپنے بیٹے کا مقدمہ لڑتے رہے اور عدالت کو بتایا کہ راؤ انوار اور اُن کے ساتھی افسران کیس واپس لینے کے لیے دھمکیاں دے رہے ہیں۔
اِسی دوران 16 اپریل کو ایک اور پٹیشن پر عدالت نے ایکشن لیا، جس میں زاہد علی عابد نے درخواست جمع کروائی تھی کہ اُن کے بیٹے کو راؤ انوار نے اغواء کرکے 5 لاکھ روپے طلب کیے اور ادا نہ کرنے پر بیٹے کو قتل کردیا۔ معاملہ صرف یہیں تک نہیں تھا، بلکہ سندھ ہائی کورٹ نے 2015ء میں مبینہ مقابلوں میں مارے جانے والے مشتبہ افراد میں سے 50 کی تحقیقات کا حکم دیا جبکہ ملیر میں زمینوں پر قبضے اور لوگوں کو دھمکیاں دے کر جائیدادیں ہتھیانے کے حوالے سے بھی کیس کی سماعت کی۔
پڑھیے: کراچی: راؤ انوار پر حملہ، جوابی فائرنگ میں 2 دہشت گرد ہلاک
معاملہ صرف مبیّنہ پولیس مقابلوں تک محدود نہیں تھا بلکہ زمینوں پر قبضوں کی لڑائی میں معطل ایس ایس پی راؤ انوار پر اپنے ہی آن ڈیوٹی بھائیوں کو اغواء کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ انسدادِ تجاوزات کے حوالے سے سرکاری زمینوں سے تجاوزات ختم کرانے پر سب انسپکٹر محراب کھوسو غائب ہوئے تو اُن کے والد ریٹائرڈ پولیس افسر نیاز کھوسو نے راؤ انوار پر ساتھی پولیس افسر کو اغواء کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ اُن کی ایف آئی آر کسی تھانے میں درج نہیں کی جارہی۔
حیرت انگیز طور پر اِن تمام الزامات سے نکل کر راؤ انوار ایک بار پھر اپنے عہدے پر تعینات کردیئے گئے جبکہ متاثرین اور عوام سمیت عدلیہ بھی صرف دیکھتی رہ گئی۔ 16 ستمبر کو ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار کے گھر پر چھاپے کے بعد راؤ انوار کو معطل کردیا گیا تھا، مگر کچھ عرصے بعد پھر اُنہیں دوبارہ بحال کردیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر معطلی کے بعد راؤ انوار کے سخت بیانات سامنے آتے رہے۔ اُس معطلی پر بھی راؤ انوار نے کہا تھا کہ اُن کی معطلی کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اپنے افسران کو بھی راؤ انوار معطلی کے بعد سخت الفاظ میں تنبیہہ کرتے رہے، یہاں تک کہ حالیہ واقعے کی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ ثناء اللہ عباسی پر بھی اعتراض کردیا اور پولیس افسران سے من پسند بیان لینے کا الزام لگا دیا۔
راؤ انوار کا کیرئیر اختتام کے قریب ہے، ریٹائرمنٹ میں چند ماہ ہی باقی رہ گئے ہیں مگر حالیہ مقابلے پر سوالات اُٹھنے کے بعد لگتا ہے کہ راؤ انوار صاحب بہت بُری طرح پھنس چکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ مقتدر شخصیات سے خصوصی قربت کے دعویدار راؤ انوار کیا اِس بار بھی بحال ہوتے ہیں یا اِس مرتبہ عوامی ردِ عمل اِس سلسلے کو بند کروانے میں کامیاب ہوتا ہے؟
اِس حوالے سے اہم بات یہ بھی ہے کہ ماضی میں تو راؤ انوار کو مقتدر حلقے بچاتے رہے ہیں مگر اِس بار صورتحال اِس اعتبار سے مختلف یوں ہے کہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ صاحب اور سندھ میں سیاسی اثر و رسوخ والی شخصیت کے درمیان سرد جنگ جاری ہے، اور اِس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ اِس کیس کی تحقیقات مقتدر حلقے کے بجائے آئی جی کی جانب سے قائم کردہ کمیٹی کررہی ہے۔
آنے والا وقت اِس حوالے سے اُٹھنے والے ہر سوال کا جواب دے دے گا کہ ایس ایس پی راؤ انوار کے حوالے سے کیا فیصلہ آتا ہے؟ اِس بار اُن پر لگنے والے الزامات سچ ثابت ہوں گے یا ماضی کی طرح وہ واپس اپنے عہدے پر براجمان ہوجائیں گے۔
تبصرے (10) بند ہیں