• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

مبینہ پولیس مقابلہ: راؤ انوار ایس ایس پی ملیر کے عہدے سے برطرف

شائع January 20, 2018

کراچی: سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار کی جانب سے مبینہ طور پر پولیس مقابلے میں ہلاک کیے گئے نقیب اللہ محسود کے معاملے پر تفتیش کی تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں راؤ انوار کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا۔

انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس سندھ کے دفتر سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق راؤ انوار کی جگہ عدیل حسین چانڈیو کو ایس ایس پی ملیر تعینات کردیا گیا۔

عدیل حسین چانڈیو ایس ایس پی سٹی کے عہدے پر تعینات تھے، تاہم ان کی جگہ ایس ایس پی کمبر اور شہداد کوٹ شیراز نظیر کو تعینات کردیا گیا جبکہ ایس ایس پی کراچی جنوبی ڈاکٹر اسد اعجاز ملہی کو ایس ایس پی کمبر اور شہداد کوٹ تعینات کردیا گیا۔

نوٹیفکیشن کے مطابق ایس ایس پی کراچی جنوبی کا چارج ایڈیشنل ڈی آئی جی ٹریننگ عابد حسین قائم خانی کو سونپ دیا گیا۔

اس سے قبل کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے معاملے پر تحقیقات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ اور محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (آئی جی) ثناء اللہ عباسی کا کہنا تھا کہ انہوں نے تحقیقاتی رپورٹ سندھ پولیس اور صوبائی حکومت کو ارسال کی تھی۔

ایڈیشنل آئی جی نے بتایا کہ تحقیقاتی رپورٹ میں پولیس کی جانب سے بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے جبکہ ملزمان کے جیل میں بھی بیانات لئے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے نقیب اللہ کے ’ماورائے عدالت قتل‘ کا نوٹس لے لیا

انہوں نے مزید کہا کہ کمیٹی میں شامل تمام افسران ایماندار ہیں اور عوام کو انصاف ہوتا نظر آئے گا۔

دوسری جانب ایس ایس پی راؤ انوار نے تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی کے رکن ڈپٹی انسپیکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سلطان خواجہ سے متعلق تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سلطان خواجہ نے سابق ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن کو بلا کر کہا تھا اگر وہ ایس ایس پی ملیر کے خلاف بیان دیں تو انہیں بچالیا جائے گا۔

خیال رہے کہ سہراب گوٹھ میں پولیس مقابلے کے خلاف ہونے والے احتجاج اور ہنگامہ آرائی کو بھی ایس ایس پی راؤ انوار نے سازش قراردیا تھا۔

راؤ انوار نے دعویٰ کیا تھا کہ میرے دور میں سہراب گوٹھ کبھی بند نہیں ہوا، جبکہ مقابلے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ وہ مقابلے کے بعد جائے وقوع پر پہنچے تھے اور اس کے حقائق چیک کیے جاسکتے ہیں۔

راؤ انوار کا کہنا تھا کہ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف بہت کام کیا اگر ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی جاری ہے تو سمجھ سے بالا تر ہے۔

نقیب اللہ کا قتل

یاد رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو گزشتہ ہفتے ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ’پولیس مقابلے میں نوجوان کا قتل‘، بلاول بھٹو اور وزیر داخلہ سندھ نے نوٹس لے لیا

اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

نقیب اللہ کے قریبی عزیز نے بتایا تھا کہ رواں ماہ کے آغاز میں نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ پر واقع کپڑوں کی دکان سے سادہ لباس افراد مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے تھے جبکہ 13 جنوری کو پتہ چلا تھا کہ اسے مقابلے میں قتل کردیا گیا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ مقتول اس سے قبل بلوچستان میں حب چوکی پر ایک پیٹرول پمپ پر کام کرتا تھا اور اس کے کسی عسکریت پسند گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

قتل پر ردعمل اور نوٹس

نقیب اللہ محسود کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر داخلہ سندھ سہیل انوار سیال نے نوٹس لیا تھا اور واقعے کی تحقیقات کی ہدایت کی تھی۔

مزید پڑھیں: کراچی: راؤ انوار پر حملہ، جوابی فائرنگ میں 2 دہشت گرد ہلاک

اس کے علاوہ نقیب کی ہلاکت کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں نے فیس بک پر اپنی وال پر تعزیتی پیغام پوسٹ کیے اور نقیب اللہ کی تصاویر کو بھی شیئر کیا۔

عوام کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر پولیس کے جعلی مقابلوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور پولیس میں چھپی کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

جس کے بعد نقیب محسود کی ہلاکت کے حوالے سے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے 3 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس کا سربراہ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کو بنایا گیا تھا جبکہ ڈی آئی جی جنوبی اور ڈی آئی جی شرقی بھی ٹیم کے ارکان میں شامل ہیں۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے بھی کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کے قتل کا از خود نوٹس لے لیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024