ڈی آئی خان: لڑکی پر تشدد کے ملزم کی جائیداد قرقی کا عمل شروع
ڈیرہ اسماعیل: پشاورہائی کورٹ میں شریفہ بی بی کی بے حرمتی سے متعلق کیس میں پولیس نے عدالت کو بتایا کہ مفرور مرکزی ملزم کی غیرمنقولہ جائیداد قرق کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
واضح رہے کہ اکتوبر 2017 میں خاندانی تنازع پر ایک بااثر خاندان نے مخالف فریق کی جواں سالہ لڑکی کو برہنہ محلوں اور گلیوں میں گھمایا تھا۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) نے کارکردگی رپورٹ پشاور ہائی کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل میں جمع کرتے ہوئے بتایا کہ شریفہ بی بی کیس میں ملوث 9 ملزمان میں سے 8 گرفتار کیے جا چکے ہیں جبکہ مرکزی ملزم سجاول کی تلاش اور گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
یہ پڑھیں: ڈیرہ اسماعیل خان:لڑکی پر تشدد کے الزام میں مزید 2 افراد گرفتار
رپورٹ میں کہا گیا کہ دو مختلف ایف آئی آر کے تحت ملزمان کو معاونت فراہم کرنے کے الزام میں دائر کی گئی درخواست اور سی آر پی سی کے سیکشن 88 کی رو سے ملزم کی 138 کنال پر مشتمل غیر منقولہ جائیداد کی قرقی کے لیے جوڈیشل مجسریٹ کو جمع کرادی ہے’۔
خیال رہے کہ کیس میں پشاور ہائی کورٹ نے پولیس کو ہر 15 دن بعد تحقیقات کی نئی رپورٹ جمع کرانے کا پابند بنایا ہے۔
آئی جی پی آفس نے رپورٹ میں کہا کہ پولیس نے ویڈیو بنانے والے رحمت اللہ نامی ملزم کے قبضہ سے 10 موبائل فونز تحویل میں لیے اور فرانزک ٹیسٹ کے لئے لیبارٹری بھیج دیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’لڑکی کو برہنہ کرکے گھمانے کا واقعہ ملک کیلئے دھبہ‘
رپورٹ کے مطابق ‘ملزم رحمت اللہ کے قبضے سے مزید 3 موبائل برآمد کر کے انہیں ایف ایس ایل میں ویڈیو ٹریسنگ کے لیے بھیج دیاگیا ہے جبکہ ملزم سے تفتیش کے دوران کوئی خاص نتائج سامنے نہیں آئے’۔
متاثرہ لڑکی اور اس کے خاندان کے تحفظ کے لیے ایک ہیڈ کانسٹیبل اور تین پیدل مسلح کانسٹیبل تعینات کیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ ڈیرہ اسمٰعیل خان کے علاقے دربان میں 27 اکتوبر کو ایک لڑکی پر تشدد کا واقعہ پیش آیا تھا جبکہ بااثر افراد نے لڑکی کو پورے علاقے میں برہنہ گھمایا تھا۔
مزید پڑھیں: ڈی آئی خان: لڑکی پر تشدد کے الزام میں 7 افراد گرفتار
متاثرہ لڑکی کے اہل خانہ نے مقامی پولیس اسٹیشن میں واقعے کا مقدمہ درج کرایا تھا، جس میں تمام ملزمان کی نشاندہی بھی کی گئی تھی۔
تشدد کا شکار لڑکی کے بھائیوں نے مقامی پولیس پر کارروائی میں غفلت برتنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخوا سے انصاف کی اپیل کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ ایس ایچ او کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
درخواست میں کہا گیا کہ ان کی بہن کو سجاول اور ان کے ساتھیوں نے پانی کے تالاب سے اس وقت اٹھا لیا تھا جب وہ سہیلیوں کے ساتھ پانی لینے گئی تھیں، جس کے بعد وہ ایک گھر میں چھپ کر پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن ملزمان نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور گھر سے باہر نکالا اور غیر قانونی طور پر حراست میں بھی رکھا۔
شریفہ بی بی نے ایف آئی آر سے قبل بیان دیا تھا کہ مقامی پولیس نے اس کے بھائی اور انکل کو حراست میں لیا تاکہ کیس کی پیروی سے روک سکیں۔
دوسری جانب پولیس کی ابتدائی ایف آئی آر میں کہا گیا کہ متاثرہ لڑکی کو اپنے ٹھکانے پر لے جایا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ برہنہ پریڈ جیسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
یہ خبر 11 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی