• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

وزیراعلیٰ پنجاب کی زینب کے گھر آمد، ملزمان کو سزا دلوانے کی یقین دہانی

شائع January 11, 2018 اپ ڈیٹ January 29, 2018

وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے قصور میں قتل ہونے والی 6 سالہ بچی زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے تعزیت کا اظہار کیا اور اسے قتل میں ملوث ملزمان کو سزا دلوانے کی یقین دہانی بھی کرائی۔

اس موقع پر شہباز شریف نے بچی کے والد کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا اور کہا کہ یہ مقدمہ جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچے گا اور قاتل کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔

دوسری جانب قصور واقعے کے بعد دوسرے روز بھی ضلع کی فضا سوگوار ہے اور حالات معمول پر نہیں آسکے ہیں اور مقتولین کے ورثاء ، تاجروں اور وکلاء کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

مزید پڑھیں: قصور:کمسن بچی کے مبینہ ریپ، قتل پر احتجاج، توڑ پھوڑ

دریں اثناء 6 سالہ بچی زینب کے قتل کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر فائرنگ کرنے والے پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا۔

حکومت پنجاب کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ایک ٹوئٹ میں بتایا گیا کہ قصور میں مظاہرین پر فائرنگ کرنے والے چاروں پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا، جن سے پوچھ گچھ جاری ہے۔

وزیر قانون کا زینب قتل کیس میں اہم پیش رفت کا دعویٰ

ادھر وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے زینب قتل کیس کی تحقیقات میں اہم پیش رفت کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 4 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور ان سے تفتیش جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس واقعہ پر بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے ارکان نے زینب کے اہل خانہ سے رابطہ کرلیا ہے جبکہ قاتل کو جلد گرفتار کرکے کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔

رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ زینب کے قتل کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر فائرنگ کرنے والے پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی نے فائرنگ کا حکم نہیں دیا تھا یہ ان اہلکاروں کا غیر ذمہ دارانہ فعل تھا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز قصور میں 6 سالہ بچی کے قتل کے خلاف اہل علاقہ مشتعل ہوگئے تھے اور ڈی پی او آفس پر دھاوا بھول دیا تھا اور دروازہ توڑ کر آفس میں داخل ہونے میں کامیباب ہوئے تھے۔

اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے براہ راست فائرنگ کی تھی، جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

یاد رہے کہ 4 جنوری کو 6 سالہ زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا، جس کے بعد 9 جنوری کو زینب کی لاش شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی۔

اس بارے میں پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا اور اس کے قتل میں دو افراد بھی ملوث ہوسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 2015 سے ہونے والے ریپ اور قتل کے 8 کیسز کے پیچھے 'سیریل کلر' ملوث

اس واقعہ کے بعد پولیس کو ایک سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موصول ہوئی تھی، جس میں بچی کو ایک شخص کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا، اس فوٹیج کے بعد پولیس نے زینب کے قتل میں ملوث ایک ملزم کا خاکہ بھی جاری کیا تھا، تاہم ابھی تک ملزم کی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی۔

یاد رہے کہ قصور میں بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، ایک سال میں اس طرح کے مزید 11 واقعات رونما ہوچکے ہیں، جن میں زیادتی کا نشانہ بنائی گئی بچیوں کو اغوا کرنے کے بعد ریپ کا نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا تھا جبکہ ان تمام بچیوں کی عمریں 5 سے 8 سال کے درمیان تھیں لیکن پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024