'بچوں سے زیادتی کے واقعات پر حکومت سنجیدہ نہیں'
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما نفیسہ شاہ نے کہا ہے کہ بچوں کے ساتھ ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ ملزمان کو سزا نہ ہونا ہے، کیونکہ حکومت اس پر سنیجدہ دکھائی نہیں دیتی۔
ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے نفیسہ شاہ نے قصور میں 7 سالہ بچی زینب کے ساتھ مبینہ زیادتی اور قتل کے واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس علاقے میں ماضی میں بھی ایسے کیسز سامنے آئے، مگر ملزمان کی عدم گرفتاری اور اصل ذمہ داروں کو سزائیں نہ ملنے کے باعث یہ مسئلہ بڑھتا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب دو سال قبل قصور میں ہی بچوں کے ساتھ مبینہ ریپ کا ویڈیو اسکینڈل منظر عام پر آیا تھا، تب بھی صرف دو لوگوں کو گرفتار کیا گیا، مگر باقی ملزمان قانون کی گرفت سے آج تک آزاد ہیں اور جو کچھ زینب کے ساتھ ہوا وہ اسی حکومتی غلفت کا نتیجہ ہے۔
مزید پڑھیں: قصور:کمسن بچی کے مبینہ ریپ، قتل پر احتجاج، توڑ پھوڑ
ان کا کہنا تھا کہ 'وزیرقانون پنجاب رانا ثناء اللہ کے بقول قصور میں ان واقعات کی وجہ زمین کا تنازع ہے، مگر ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر ایسا کیا ہے کہ صرف ایک کلومیٹر کی حدود میں ہی یہ واقعات رونما ہورہے ہیں، لہذا بیانات سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا اور ہمیں عملی طور پر اقدامات کرنے ہوں گے'۔
پی پی رہنما نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے پر سیاست سے گریز کرنا چاہیے اور جو لوگ اسے سیاسی رخ دینے کی کوشش کررہے ہیں، انہیں چاہیے کہ ایک جلسہ زینب کو انصاف دلوانے کے لیے بھی کریں اور ایسا ہونا بھی چاہیے، کیونکہ اپنی ذات کے لیے تو سیاستدان سڑکوں پر آتے ہیں، مگر اس طرح کے معاشرتی مسائل کے خاتمے کے لیے کوئی آواز بلند نہیں کرتا۔
نفیسہ شاہ کا مزید کہنا تھا کہ خود حکومت تسلیم کرتی ہے کہ جنوری 2017 سے اب تک قصور میں یہ 12واں کیسز تھا، جبکہ جو پہلے ہوئے ان میں سے متعدد تو میڈیا پر رپورٹ ہی نہیں ہوسکے، اس لیے یہ بہت ہی خطرناک صورتحال ہے۔
خیال رہے کہ چند روز قبل صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں ایک 7 سالہ کمسن بچی کو اغواء کے بعد مبینہ ریپ کا نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا تھا، جبکہ اس کی لاش شبہاز خان روڈ پر کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی۔
بچی کی لاش ملنے کے بعد اسے پوسٹ مارٹم کے لیے ڈسٹرکٹ ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں اس کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد لاش کو ورثاء کے حوالے کردیا گیا تھا، تاہم اس حوالے سے رپورٹ میں بچی کے ساتھ مبینہ ریپ کی اطلاعات سامنے آئیں تھیں۔
اس واقعے کے حوالے سے ایک سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آئی تھی، جس میں ایک شخص کو بچی کا ہاتھ پکڑ کر لے جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا، تاہم پولیس اس واقعے کے ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام نظر آئی۔
یہ بھی پڑھیں: 6 ماہ میں 10 کم سن بچوں کا ریپ اور قتل
اسی واقعہ کے خلاف گزشتہ روز قصور میں حالات اس وقت کشیدہ ہوگئے، جب بڑی تعداد میں مشتعل مظاہرین نے قصور کے ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا۔
اس موقع پر مشتعل مظاہرین کی پولیس سے جھڑپ بھی ہوئی، اس دوران مبینہ طور پر فائرنگ سے 2 افراد ہلاک ہوگئے، جس کے بعد کشیدہ صورتحال کے پیشِ نظر انتظامیہ نے رینجرز طلب کرلی۔
یاد رہے کہ قصور میں بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، ایک سال میں اس طرح کے 11 واقعات رونما ہوچکے ہیں، جن میں زیادتی کا نشانہ بنائی گئی بچیوں کو اغوا کرنے کے بعد ریپ کا نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا تھا جبکہ ان تمام بچیوں کی عمریں 5 سے 8 سال کے درمیان تھیں لیکن پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے۔