• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناءاللہ زہری مستعفی

شائع January 9, 2018 اپ ڈیٹ January 10, 2018

کوئٹہ: بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے اور انہوں نے اپنا استعفیٰ گورنر محمد خان اچکزئی کو پیش کردیا، جو قبول کر لیا گیا ہے۔

میڈیا کو جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں نواب ثناء اللہ زہری کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران بلوچستان کے سیاسی حالات بہت کشیدہ ہوگئے تھے جس میں ان کے ساتھیوں ان پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے تحفظات دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت اور وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی بھی کوئٹہ تشریف لائے تاہم اس معاملے میں مثبت پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔

نواب ثناء اللہ زہری کا کہنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ 2 برس سے نہ صرف حکومتی اراکین کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کی بلکہ اپوزیشن جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ رکھا۔

انہوں یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اکثر تقاریب میں ان کے ساتھ صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی ان کے ساتھ ہوا کرتے تھے جس پر میڈیا کو حیرانی ہوا کرتی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ سیاسی عمل کےساتھ ساتھ انہوں نے کوشش کی کہ صوبے میں حکومتی عمل داری قائم رہے اور یہاں امن و امان قائم ہو۔

نواب ثناء اللہ زہری کا کہنا تھا کہ اللہ کا شکر ہے کہ بلوچستان میں امن و امان بحال کی صورتحال بہت بہتر ہے جس کے لیے پولیس، فرنٹیئرکور (ایف سی)، لیویز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سخت محنت کی اور بلوچستان کے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنایا۔

ان کا کہنا تھا ’مخلوط حکومت چلانا اتنا آسان نہیں ہوتا، حکمراں جماعت نے اکثریت میں ہونے کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی اور اس کے لیے صوبے میں اپنی اتحادی جماعتوں کے بھی مشکور ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں طاقت اور اقتدار اس اسمبلی نے دیا اور وہ محسوس کر رہے ہیں کہ اکارنِ اسمبلی کی بڑی تعداد ان کی قیادت سے مطمئن نہیں ہے اسی لیے وہ وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر زبر دستی فائز نہیں رہنا چاہتے۔

پریس ریلیز میں انہوں نے لکھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی وجہ سے صوبے کی سیاسی پر کوئی منفی اثر پڑے اس لیے وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے رہے ہیں۔

نواب ثناء اللہ زہری نے صوبے میں سیاسی عمل کو جاری رکھنے اور صوبے کی ترقی کے حوالے سے نیک خواہشات کا بھی اظہار کیا۔

سرفراز بگٹی کا دعویٰ

اس سے قبل سابق وزیرِ داخلہ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے دعویٰ کیا تھا کہ نواب ثناء اللہ زہری نے صوبے کے وزارتِ اعلیٰ کے منصب سے استعفیٰ دے دیا۔

خیال رہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں سامنے آئیں تھیں کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے مشورے کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے وزارتِ اعلیٰ کے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

بلوچستان کے سابق وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام سامنے آیا جس میں ان کا کہنا تھا ’الحمداللہ! وزیراعلیٰ بلوچستان مستعفی ہوگئے۔‘

بعد ازاں کوئٹہ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’نواب ثنااللہ زہری جمہوری روایات کے عین مطابق مستعفی ہوئے جس پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، ان کی آئندہ کی سیاسی زندگی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہیں اور خواہش ہے کہ وہ آگے بھی بلوچستان کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’تحریک عدم اعتماد جمہوری عمل ہے، ثنااللہ زہری سے کوئی ذاتی عناد نہیں، جبکہ ان کے ساتھ عزت و احترام کا رشتہ آئندہ بھی قائم رہے گا۔‘

صوبے کے اگلے وزیر اعلیٰ سے متعلق سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’ضروری نہیں نیا وزیر اعلیٰ (ن) لیگ سے ہی ہو۔‘

واضح رہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ روز کوئٹہ کا دورہ کیا تھا اور ناراض ارکان کو منانے میں ناکامی کے بعد وزیر اعلیٰ کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے نواب ثناءاللہ زہری نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے سربراہ محمود خان اچکزئی سے بھی ملاقات کی تھی جنہوں نے وزیر اعلیٰ کو مستعفیٰ ہونے کا مشورہ دیا تھا۔

یہ پڑھیں: بلوچستان حکومت کو 'اب' گرا کر کیا حاصل کرنے کی کوشش ہے؟

خیال رہے کہ ثناء اللہ زہری کے خلاف 9 جنوری کو بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی جانی ہے، جسے ناکام بنانے کے لیے وزیر اعلیٰ نے مختلف ارکان سے رابطہ کیا تھا لیکن وہ صرف 20 ارکان کو حمایت کے لیے راضی کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کےخلاف تحریک عدم اعتماد روکنے میں حکومت ناکام

بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب ثناءاللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے والے مسلم لیگ (ن) کے ناراض قانون سازوں کو منانے کے لئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا دورہ کوئٹہ ناکامی سے دوچار ہوگیا تھا۔

واضح رہے کہ بلوچستان کے سابق وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کی قیادت میں درجن بھر سے زائد مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے اراکینِ اسمبلی نے وزاعلیٰ بلوچستان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تھی۔

دوسری جانب بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مولانا واسع نے کہا تھا ’وزیراعظم شاہد خاقان عباسی مایوس آئے تھے اور مایوس ہی لوٹ گئے‘۔

انہوں نے عزم کا اظہار کیا تھا کہ بلوچستان اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب بنائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: 'بلوچستان کے سیاسی بحران کا اثر سینیٹ انتخابات پر نہیں ہوگا'

شاہد خاقان عباسی نے کوئٹہ کے ہنگامی دورے پر گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی، وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری، پشتونخواملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے قانون سازوں سے ملاقات کی تاہم اتحادی جماعتوں کے بھرپور اصرار کے باوجود ناراض صوبائی اسمبلی کے اراکین نے گورنر ہاؤس کے عشائیے میں شرکت نہیں کی۔

پی کے میپ کے رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ زہری نے ڈان کو بتایا کہ 21 سے میں 8 مسلم لیگ (ن) کے حمایتی اراکین گورنر ہاؤس میں منعقد عشایئے میں شریک ہوئے تھے تاہم انہوں نے کہا ایوان زریں میں نواز ثناء اللہ زہری اکثریت رکھتے ہیں۔

سابق وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے دعویٰ کیا تھا ‘ہمیں 40 سے زائد قانون سازوں کی حمایت حاصل ہے ’۔

مزید پڑھیں: نواز شریف پر جعلی نوٹوں کی بارش

خیال رہے کہ بلوچستان اسمبلی میں وزیرِاعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کی جانی تھی جبکہ اس ضمن میں بلوچستان اسمبلی کی اسپیکر راحیلہ حمید خان درانی نے میڈیا کو اجلاس کی کارروائی کی کوریج سے روکنے کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ رواں ماہ وزیراعلی بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف بلوچستان کی اسمبلی سیکریٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع کراتھی۔

تحریک عدم اعتماد مسلم لیگ (ق) کے رکن بلوچستان اسمبلی اور سابق ڈپٹی اسپیکر عبدالقدوس بزنجو نے جمع کروائی تھی۔

اس تحریک کو جمع کرانے کی وجوہات پر اظہار خیال کرتے ہوئے عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ ملازمتوں میں مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) کے ارکان کو نظر انداز کیا گیا ہے اس کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں میں بھی ان 14 ارکان کو نظر انداز کیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024