یمن کی تباہی کی بڑی وجہ جنگ اور ’منشیات‘
یمن کئی سال سے جنگ کے باعث قحط سالی کا شکار ہے، روزگار کے مواقع نہ ہونے کے باعث لوگوں کی قوت خرید نہ ہونے کے برابر ہے، تاہم کئی امدادی ادارے قحط سالی کی کئی اور وجوہات بھی بتاتے ہیں۔
امدادی ادارے یمن کی قحط سالی کے دہانے پر ہونے کو پہلے ہی سامنے لاچکے ہیں، جن کی وجوہات خانہ جنگی، سعودی عرب کی جانب سے شمالی بندرگاہوں پر گھیراؤ اور انفراسٹرکچر کی تباہی، حوثی باغیوں کے زیر اثر علاقوں میں ملازمین کی تنخواہوں سے محرومی اور ملک کی کرنسی کی قدر مستقل کم ہونا ٹھہرایا جاسکتا ہے، ان تمام مسائل کے باعث یمن کے شہری ضرورت کے مطابق خوراک خریدنے سے قاصر ہیں۔
امدادی ادارے بھوک و افلاس کی ایک بڑی وجہ کچھ اور بھی قرار دیتے ہیں، جسے سامنے نہیں لایا جاتا۔
برطانوی جریدے دی اکنامسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ وجہ یمن کا ایک سبز پتوں پر مشتمل پودہ ’قات‘ (یا غات) ہے، جس کا شمار ملک کی سب سے زیادہ مشہور منشیات میں ہوتا ہے، 90 فیصد مرد کے ساتھ ساتھ ہر تیسری عورت قات کو چباتی ہوئی نظر آتی ہے, جب تک اس میں سے نشہ آور رس خون میں شامل نہیں ہوجاتا، اس نشہ آور پودے کو منہ میں دبائے رکھا جاتا ہے۔
گزشتہ ادوار میں ایک بار اس کے حصول کے لیے کوئی موقع میسر ہوتا تھا اور یہ بھی ملک کے شمال مغربی پہاڑی علاقوں تک محدود تھا، جہاں قات پیدا ہوتا تھا لیکن 1990 میں یہ جنوبی حصوں تک پھیلا اور اب یہ پورے ملک میں ایک بڑی مارکیٹ حاصل کرچکا ہے۔
مرد خاندان پر رقم خرچ کرنے کے بجائے اس نشے کی لت کو پورا کرنے کے لیے کبھی کبھی ماہانہ 800 ڈالرز (80ہزار روپے سےزائد) تک خرچ کر دیتے ہیں، اس کے علاوہ حفاظتی چوکیوں پر اہلکار ہتھیاروں اور دیگر املاک کی تلاشی کے بجائے اپنی نشے کی لت پوری کرنے کے لیے رشوت وصول کرتے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب ملک میں بنیادی ضروریات کا فقدان ہے اور گندم جسے بہترین کاشت کاری فصل کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، اس کے مقابلے میں قات کی سالانہ پیداوار میں 12 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔
دوسری جانب حکام کی جانب سے اسے ’یمن کی ویاگرا‘ کہا جاتا ہے اور اس کے استعمال کو سراہا جاتا ہے جبکہ یمن کی فوج کے سربراہ جنرل طاہر علی العقیلی کا کہنا ہے کہ یہ ہماری شراب ہے اور یہ مردوں کو لڑنے میں طاقت فراہم کرتی ہے۔
جب یمن کے سب سے بڑے صوبے حضرالموت کے گورنر نے اپنے دفتر میں اس کے کھانے پر پابندی لگانے کی کوشش کی، تو انہیں یمن کے صدر عبدربہ منصور ہادی سے ملنے کے لیے ریاض طلب کرلیا گیا۔
واضح رہے کہ صرف القاعدہ کو اس منشیات پر پابندی لگانے میں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمالی یمن کو قحط سالی میں سب سے زیادہ خطرات ہیں، لیکن حوثی باغی قات کی کاشتکاری پر اتنی ہی اپنی اجارہ داری رکھتے ہیں، جتنا صدر عبدربہ منصور ہادی کی ملک کے تیل اور گیس کے ذخائر پر رکھتے ہیں۔
اس کے باعث دشمنوں کے علاقوں میں سڑکیں کھلی رہتی ہیں اور روزانہ اس فصل سے بھرے درجنوں ٹرک معارب جاتے ہیں جبکہ قات پر ٹیکس بھی جنگ میں دونوں اطراف سے کمایا جاتا ہے۔
اس حوالے سے حالیہ اعداد و شمار ناکافی ہیں، لیکن سال 2000 میں عالمی بینک کے اندازے کے مطابق یمن کی معیشت کا 30 فیصد قات کی کاشت سے ہوتا تھا، یہاں تک کے بھوک و افلاس سے متاثرہ علاقوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے اور منشیات ان کی بھوک کو روکتی ہے۔
اس بارے میں جنوبی علاقے کے حکام کا کہنا ہے کہ ہم حوثیوں کے خلاف ہتھیاروں سے لڑ رہے ہیں اور انہیں اپنے منہ سے مدد فراہم کر رہے ہیں۔