پاکستان کو واچ لسٹ میں رکھنے پرامریکا سے وضاحت چاہتے ہیں،اعزازچوہدری
امریکا میں پاکستان کے سفیر اعزاز احمد چوہدری نے کہا ہے کہ حکومت نے انسانی حقوق کے تحفظ اور مذہبی آزادی کے لیے جو اقدامات اٹھائے ہیں ان کا اعتراف ہونا چاہیے اسی لیے پاکستان کو خصوصی واچ لسٹ پر رکھنے کے حالیہ بیان پر اسلام آباد، امریکا سے وضاحت مانگ رہا ہے۔
اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق اعزاز چوہدری نے کہا کہ امریکی محمکہ خارجہ کی طرف سے پاکستان کو خصوصی واچ لسٹ پر رکھنے کے اعلان پر ہمیں تشویش ہے، پاکستان اس اعلان کی منطق اور اس کے اثرات کے حوالے سے امریکا سے وضاحت چاہتا ہے۔
مزید پڑھیں:امریکا نے پاکستان کا نام ’خصوصی واچ لسٹ‘ میں ڈال دیا
ان کا کہنا تھا کہ یہ بات ضروری ہے کہ پاکستان اپنے آئین کے تحت انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے تحفظ اور فروغ کے لیے بھرپور طریقے سے پر عزم ہے۔
پاکستانی سفیر نے زور دیا کہ وسیع قانون سازی، ادارہ جاتی اور انتظامی اقدامات جو حکومت پاکستان نے اٹھائے ہیں ان پر بھرپور طریقہ سے عمل درآمد کویقینی بنایا جارہا ہے اور آئین پاکستان اس کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ عالمی برادری پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات سے بخوبی آگاہ ہے جن سے عملی سطح پر مثبت تبدیلی آئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان کا امریکا کے ساتھ اتحاد نہیں، وزیر خارجہ کا دعویٰ
سپریم کورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ گزشتہ برس صرف سپریم کورٹ نے متعلقہ آئینی توضیحات پر ان کی اصل روح کے مطابق عمل درآمد کے لیے تاریخی فیصلے کیے اور اہم مثالیں قائم کی ہیں۔
اعزاز چوہدری نے کہا کہ ہم مذہبی آزادی کے بین الاقوامی مسلمہ معیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان اور خطے میں اس کے نفاذ کو یقینی بنانے کی خاطر عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔
یاد رہے کہ امریکی محمکہ خارجہ نے 4 جنوری کو مذہبی آزادی کی 'سنگین خلاف ورزیوں' پر پاکستان کو خصوصی واچ لسٹ میں ڈال دیا تھا۔
پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ 'آج کئی حکومتیں لوگوں کے مذہب یا اعتقاد کو فسخ کرکے انہیں اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق چلانے کی کوشش کر رہی ہیں'۔
بیان میں برما، چین، اِریٹیریا، ایران، شمالی کوریا، سوڈان، سعودی عرب، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کو بین الاقوامی مذہبی آزادی کے قانون 1998 کے تحت ’خصوصی تشویش والے ممالک‘ کی فہرست میں دوبارہ نامزد کردیا گیا۔
واچ لسٹ میں شامل کیے جانے کا مطلب پاکستان ’خصوصی تشویش والے ممالک‘ کی فہرست میں شامل ہونے سے بس ایک قدم دور ہے۔