شمالی کوریا! میرے پاس زیادہ بڑا اور طاقتور جوہری بٹن ہے، ٹرمپ
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ ان کی دھمکی کے جواب میں ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے پاس شمالی کوریا کے جوہری ہتھیار چلانے والے بٹن سے ‘زیادہ بڑا ’ بٹن ہے۔
دوسری جانب واشنگٹن نے شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے مابین اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے امکانات کو بھی مسترد کردیا ہے۔
اقوامِ متحدہ میں امریکا کی مندوب نیکی ہیلی نے واضح کیا کہ واشنگٹن شمالی کوریا کو بطور جوہری ملک ہرگز قبول نہیں کرے گا۔
یہ پڑھیں: ’ایٹمی ریاست‘ بننے پر شمالی کوریا میں جشن
واضح رہے کہ گزشتہ روز (2 جنوری کو) شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ ان نے سال نو کے موقعے پر ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ ‘امریکا کسی بھی صورتحال میں جنگ کا آغاز نہیں کر سکتا کیوں کہ جوہری ہتھیار چلانے کا بٹن ہر وقت ان کی میز پر موجود ہوتا ہے۔’
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شمالی کوریا کی جانب سے مذکورہ بیان کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئیٹ پر جواب دیا تھا کہ ‘مفلوک الحال اور بھوک کی ماری حکومت کے صدر کو کوئی بتائے کہ میرے پاس بھی جوہری ہتھیار کا بٹن ہے اور میرا والا بٹن زیادہ بڑا، زیادہ طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ فعال بھی ہے۔‘
جزیرے نما کوریا میں بڑھتے سیاسی تناؤ کو کم کرنے کے حوالے سے جنوبی کوریا نے کِم جونگ ان کے ساتھ مذاکرات کے لئے 9 جنوری کی تاریخ کو اہم قرار دیا ہے۔
تاہم امریکا نے دونوں ممالک کے مابین مذاکرات کی سنجیدگی پر سوالات اٹھا دیئے۔
یہ بھی پڑھیں: شمالی کوریا کا امریکا پر 'جوہری بلیک میلنگ' کا الزام
واضح رہے کہ شمالی کوریا نے گزشتہ چند مہینوں میں مجموعی طور پر 6 جوہری میزائلوں کا تجربہ کرکے عالمی برداری کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا جبکہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ پیانگ یانگ کا چھٹا میزائل تجربہ ہائیڈروجن بم کا تھا۔
میزائل ٹیسٹ کرنے کے خلاف امریکا نے نئی اقتصادی پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ سخت رویہ اختیار کیا لیکن شمالی کوریا نے جوہری پروگرام پر اٹھنے والے تمام تر اعتراضات اور پابندیاں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ ‘شمالی کوریا کا جوہری پروگرام امریکی جارحیت کے خلاف دفاعی بنیادوں پر ہے’۔
جنوبی کوریا کی شمالی کوریا کو مذاکرات کی دعوت
اس سے قبل جنوبی کوریا کے صدر نے شمالی کوریا کو اعلیٰ سطحی مذاکرات کی تجویز پیش کی تھی جس پر پیانگ یانگ نے مثبت جواب دیا اور امید ظاہر کی کہ ‘جنوبی کوریا کے شہر پیانگ چھانگ میں ونٹر اولمپکس 2018 امن کی کاوشوں کے لئے غیر معمولی ثابت ہوگا’۔
جنوبی کوریا کے ایک وزیر چھومینگو نے پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ‘جنوبی کوریا خطے میں امن کے لئے شمالی کوریا سے کسی بھی وقت اور کسی بھی مقام پر مذاکرات کے لئے تیار پے۔‘
مزید پڑھیں: جنوبی کوریا کی ایک مرتبہ پھر شمالی کوریا کو مذاکرات کی پیشکش
انہوں نے کہا کہ ‘ہم امید کرتے ہیں کہ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا آمنے سامنے بیٹھ کر مشترکہ مسائل پر باہمی گفتگو کریں اور ونٹر اولمپکس 2018 میں شمالی کوریا کی شرکت کو یقینی بنائیں تاکہ دونوں ممالک کے مابین ساز گار ماحول کی فضاء پیدا ہو سکے’۔
دوسری جانب اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نیکی ہیلی نے واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘اگر شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں پرپابندی کے حوالے سے کچھ نہیں کیا گیا تو امریکا ان مذاکرات کو سنجیدگی سے نہیں لے گا۔‘