سول و عسکری قیادت ایک صفحے پر نہیں آسکتی، مشاہد اللہ خان
اسلا آباد: مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان کا کہنا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سیاسی اور عسکری قیادت ایک صفحے پر آگئی ہے تو یہ نہ کبھی ایک صفحے پر آئے ہیں اور نہ کبھی آئیں گے۔
ڈان نیوز کے پروگرام ’نیوز وائز‘ میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیئے جانے پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ سینیٹ میں سول و عسکری حکام کی ملاقات کے دوران سعد رفیق موجود نہیں تھے، اس لیے ترجمان پاک فوج نے ادھر ادھر سے باتیں سنی ہوں گی۔
سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ’اس طرح کے بیانات بعض اوقات حالات کے تحت مختلف اطراف سے آجاتے ہیں جس کا سیاق و سباق بیان دینے والا ہی بہتر بتا سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم اس وقت حکومت میں ہیں اور حکومت بہت سے کام کر رہی ہوتی ہے اس لیے ایسے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، لیکن 2014 سے جب سے ہماری حکومت آئی ہے غیر معمولی واقعات ہو رہے ہیں حالانکہ ہماری حکومت نے بہت اچھے اچھے کام کیے ہیں جس میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور جب غیر معمولی واقعات ہوں گے تو بیانات بھی غیر معمولی ہی آئیں گے۔‘
مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ ’میں سینیٹ کی بریفنگ میـں میں موجود تھا اور جانتا ہوں کہ وہ اجلاس بہت اچھا اور تاریخی رہا، جس کی وجہ سے سول ملٹری تعلقات میں بہتری آئی ہے۔‘
مزید پڑھیں: خواجہ سعد رفیق کا بیان غیر ذمہ دارانہ ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سیاسی اور عسکری قیادت ایک صفحے پر آگئی ہے تو یہ نہ کبھی ایک صفحے پر آئے ہیں اور نہ کبھی آئیں گے، یہ میری رائے ہے کیونکہ دونوں کی تربیت الگ ہے اور دونوں اپنے لحاظ سے چیزوں کو دیکھتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’گذشتہ دنوں سینیٹ میں سول اور عسکری حکام کے درمیان ملاقات ایک اچھا اقدام تھا اور میں نے کہا کہ سال میں اس طرح کے دو اجلاس ہونے چاہیے ایک سینیٹ اور دوسرا قومی اسمبلی میں، اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘
رہنما (ن) لیگ کا کہنا تھا کہ ’ملک میں سب سے بڑا سرکش عنصر پرویز مشرف تھے، لیکن ان پر تنقید کرنے کا مطلب آرمی پر تنقید کرنا نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’فوج کے ان لوگوں پر سلام ہے جو قوم کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں، جبکہ فوج کے خلاف اگر کوئی بات کرے گا تو اس کا جواب حکومت یا وزارت دفاع کو دینا چاہیے۔‘
یہ بھی پڑھیں: ’پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں‘
واضح رہے کہ میجر جنرل آصف غفور نے پریس بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ وفاقی وزیر ریلوے نے غیر ذمہ دارانہ طریقے سے بلاواسطہ پاکستان آرمی کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
بریفنگ کے دوران جب ڈی جی آئی ایس پی آر سے سوال کیا گیا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے اسٹیبلشمنٹ کو ان کی برطرفی کا ذمہ دار قرار دیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ پاک فوج سیاسی بیانات پر اپنا ردِعمل نہیں دے گی اور خاموشی اختیار رکھے گی، اگر ان کے پاس فوج کے ملوث ہونے کے ثبوت ہیں تو وہ سامنے لائیں۔