• KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:06pm Asr 4:35pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:41pm
  • KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:06pm Asr 4:35pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:41pm

آئینی حقوق سے محروم خواتین

شائع December 27, 2017

تاریخی طور پر جو لوگ خواتین کی افادیت کی مخالفت کرتے ہیں، وہ یہ مضحکہ خیز دلائل دیتے ہیں کہ خواتین کو اپنے آپ کو گھر تک محدود رکھنا چاہیے کیونکہ سیاست کرنا، انتخابات میں حصہ لینا اور ووٹ ڈالنا مردوں کے کرنے کے کام ہیں۔

خیبرپختونخوا کی مثال لیتے ہیں جہاں مذہبی دائیں بازو اور آہستہ آہستہ ترقی کرنے والی سیاسی جماعتیں اکثر خواتین کو انتخابات میں حصہ نہ لینے کی سازشوں میں مصروف رہتی ہیں۔ حقیقت میں، خواتین کو ووٹنگ سے روکنا ایک غیر معاشرتی عمل ہے جسے فوری ختم ہونا چاہیے۔

حالیہ رپورٹس کے مطابق خواتین نے اپر دیر اور لوئر دیر میں ضمنی انتخاب میں ووٹ ہی نہیں دیا تاہم یہ اس افسوس ناک حقیقت کی یاد دہانی ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی)، 2018 کے عام انتخابات سے قبل 12 لاکھ لاپتہ خواتین ووٹرز کا بھی ممکنہ طور پر اندراج کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے لیکن اس سے قبل ای سی پی کو ایسے حلقوں کے نتائج کو منسوخ کرنا چاہیے جہاں خواتین کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکا گیا ہو۔

مزید پڑھیں: کھانا پکاؤ، گھر کا کام کرو اور مردوں کو ووٹ دو!

حقیقت میں ای سی پی کے پاس قانونی اختیار ہے کہ ان حلقوں میں، جہاں خواتین ووٹرز کی 10 فیصد سے کم تعداد نے ووٹنگ میں حصہ لیا ہو، وہاں کے نتائج منسوخ کرکے دوبارہ انتخاب کرایا جائے۔

لہٰذا انتخابات کے نگراں ادارے کے لیے لازمی ہے کہ اپر دیر اور لوئر دیر میں دوبارہ الیکشن کرائے کیونکہ ان اضلاع میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین ووٹرز کے موجود ہونے کے باوجود ایک بھی خاتون نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔

بد قسمتی سے صوبہ خیبر پختونخوا اور پنجاب سمیت وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کے کئی قدامت پسند علاقوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے والے سیاسی جماعتوں کے مقامی نمائندوں کو بمشکل ہی کوئی سزا دی گئی ہے اور اسی وجہ سے ایسے عناصر اپنا یہ افسوس ناک رویہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ براہِ راست خواتین کو ان کا حق رائے دہی استعمال کرنے سے روکتے ہیں یا پھر انہیں پولنگ اسٹیشنز تک جانے کے لیے سہولیات مہیا نہیں کرتے۔

خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اور ان کے حقوق ضبط ہونا ایسے معاشروں میں معمول کی مشق ہوتی ہے جہاں مرد ان کی زندگیوں کو مکمل طور پر کنٹرول کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مردوں کے مقابلے میں خواتین ووٹرز کی تعداد میں واضح کمی

2013 کی انتخابی مہم کے دوران ایک جگہ پر اپر دیر میں ہی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کا مقصد خواتین کو ووٹنگ کے عمل سے دور رکھنا تھا جبکہ معاہدے کی خلاف وزری کرنے والے پر جرمانہ عائد کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔

مذکورہ معاہدے کے نتائج یہ مرتب ہوئے کہ اپر دیر میں 38 ہزار 9 سو 10 رجسٹرڈ خواتین ووٹرز ہونے کے باوجود صرف ایک ہی خاتون کا ووٹ سامنے آسکا تھا۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی اس معاشرتی دباؤ کے خلاف بات نہیں کرتیں کیونکہ ان کو ڈر ہوتا کہ ایسا کرنے سے انہیں اپنی روایتی نشستیں سے ہاتھ دھونا پڑے گے۔

تاہم اس معاملے میں جہاں جان بوجھ کر خواتین کے حقوق کو ضبط کرتے ہوئے ان کا استحصال کیا گیا ہے وہاں اگر ای سی پی دوبارہ الیکشن کرانے کا اعلان کرتا ہے تو یہ ایسے معاشروں میں ایک بہت بڑی تبدیلی ہوگی۔

مزید پڑھیں: ’انتخابی عمل میں خواتین کی شمولیت کیلئے شناختی کارڈ کا اجراء ضروری‘

علاوہ ازیں، قبائلی علاقوں میں 36 فیصد خواتین ووٹرز کا اضافہ سیاسی جماعتوں کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا اور وہ اس کی مدد سے 2018 کے عام انتخابات سے قبل الیکشن میں خواتین کے شامل ہونے کی اہمیت سے اجاگر ہوسکیں اور اس بات کو سمجھ سکیں گے کہ خواتین کے ووٹ کا کتنے بہتر طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

خواتین کے اس آئینی حق کا تحفظ کرنے کے لیے ای سی پی کو کسی صورت سیاسی جماعتوں کی اس غیر قانونی مداخلت کو برداشت نہیں کرنا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

umair hassan Dec 27, 2017 06:46pm
Dawn news, ap ki is tajweez sy ma agree karta hn k aisy tamam halqon ma Election commission dobara voting karwaye, jahan khawateen ko vote cast ni karny dia gya..

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025