شاہ زیب قتل کیس: سیشن عدالت کے حکم پر ملزمان ضمانت پر رہا
کراچی: شاہ زیب قتل کیس میں سیشن عدالت کی جانب سے رہائی کے حکم کے بعد مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت تین ملزمان کو رہا کردیا گیا۔
سیشن عدالت میں شاہ زیب قتل کیس کے حوالے سے سماعت کے دوران مقتول کے والد اورنگزیب خان کی اپیل پر ان کے بیٹے کے قتل میں ملوث مجرمان کی ضمانت پر رہائی منظور کرلی تھی۔
سیشن عدالت نے شاہ زیب قتل کیس میں ملوث شاہ رخ جتوئی سمیت دیگر ملزمان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے 5،5 لاکھ روپے فی کس ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم جاری کیا۔
بعد ازاں مچلکے جمع کرانے کے بعد مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کو جناح ہسپتال جبکہ دیگر دو ملزمان کو جیل سے رہا کردیا گیا۔
واضح رہے کہ سکندر جتوئی کے بیٹے شاہ رخ جتوئی اور ان کے دوست نواب سراج علی تالپور سمیت دیگر 2 ملزمان کو ڈی ایس پی اورنگزیب کے 20 سالہ بیٹے شاہ زیب کے قتل کے جرم میں 7 جون 2013 کو سزائے موت سنائی گئی تھی، شاہ زیب کو 25 دسمبر 2012 کو ڈیفنس میں ان کی رہائش گاہ کے قریب قتل کیا گیا تھا۔
سیشن عدالت میں شاہ زیب قتل کیس کے حوالے سے ہانے والی سماعت کے دوران مقتول کے والد اورنگزیب خان کی جانب سے دی گئی درخواست میں ان کا کہنا تھا کہ مجھے ملزمان کی ضمانت پر رہائی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شاہ زیب قتل کیس: مجرموں کی سزائیں کالعدم قرار
انہوں نے کہا کہ بیٹے کے قتل کے بعد ملزمان کے اہل خانہ سے صلح ہوگئی تھی اور یہ صلح گھر والوں کی مرضی سے کی گئی تھی۔
مقتول کے والد نے بتایا کہ ہم نے شاہ زیب کے قاتلوں کو اللہ کی رضا کے لئے معاف کیا تھا۔
اس موقع پر سیشن کورٹ کا کہنا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ سے تاحال مقدمے کا ریکارڈ موصول نہیں ہوا جبکہ صلح نامے کے حوالے سے اخبار میں اشتہار بھی دیا جائے گا۔
خیال رہے کہ 28 نومبر کو سندھ ہائی کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس میں مجرموں کو دی جانے والی سزائیں کالعدم قرار دیتے ہوئے کیس کو از سر نو سماعت کے لیے سیشن عدالت بھیجنے کی ہدایت کردی تھی۔
عدالت کی گزشتہ کارروائیاں
یاد رہے کہ شاہ زیب کے قتل کے بعد شاہ رخ جتوئی کے بیرون ملک فرار ہونے کی خبریں اخبارات اور ٹی وی چینلز پر نشر ہونے کی وجہ سے اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری نے اس معاملے پر از خود نوٹس لیا تھا۔
مزید پڑھیں : شاہ زیب قتل کیس: مرکزی ملزم عدالت میں پیش
اس واقعے کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر بحث شروع ہو گئی تھی، جس میں سندھ کے طاقتور جاگیرداروں اور اشرافیہ کے جرائم کی جوابداری پر سوال اٹھایا گیا تھا۔
کیس کی تیزی سے ہونے والی سماعت میں انسداد دہشت گردی عدالت کے جج غلام مصطفیٰ میمن نے شاہ رخ جتوئی، شریک ملزم نواب سراج تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو سزائے موت جبکہ ایک ملازم کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ میں موجود کرمنل لاء کے سیکشن 345(2) کے تحت عدالت مجرم کو مقتول کے لواحقین سے صلح کا قانونی حق دیتی ہے جس میں قصاص اور دیت کی صورت موجود ہے۔
استغاثہ کا کہنا تھا کہ شاہ زیب کا مجرمان سے ان کی چھوٹی بہن کو چھیڑنے کی وجہ سے جھگڑا ہوا تھا، جس کے بعد اس مسئلے کو بڑوں کی جانب سے حل کرلیا گیا تھا، لیکن مجرمان نے مقتول کی گاڑی پر فائرنگ کر کے اسے قتل کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں : شاہ زیب قتل کیس: مرکزی ملزم گرفتار
اس واقعے کا مقدمہ (12/591) مقتول شاہزیب کے والد کی مدعیت میں پاکستان پینل کورٹ کے سیکشن 302،109،34 کے تحت درج کروایا گیا تھا، تاہم دوران تفتیش انسداد دہشت گردی کے 1997 کے قانون کا سیکشن 354 اور سیکشن 7 بھی ایف آئی آر میں شامل کر لیا گیا۔
غلام مرتضیٰ لاشاری کی جانب سے مقتول کی بہن کے ساتھ بدسلوکی کے بعد واقعہ پیش آیا، دوران سماعت شاہزیب کی بہن نے عدالت کو ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بیان دیا کہ وہ شادی کی ایک تقریب سے واپس آرہی تھیں جب ملزمان نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔
شاہ زیب کی بہن نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ انھوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں فوراً اپنی والدہ کو فون کے ذریعے اطلاع دی۔
عدالت میں ان کی والدہ نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اس واقعے کی اطلاع ملتے ہی شاہزیب کو گھر سے روانہ کیا تھا۔
شاہ زیب کا جائے وقوع پر نواب سراج تالپور کے ملازم سے جھگڑا ہوا، شاہ زیب کی والدہ نے معاملے کو ختم کرنے کیلئے اپنے بیٹے کو ملزمان سے معافی مانگے کو بھی کہا تھا۔
شاہ زیب نے وہی کیا جو ان کی والدہ نے ان سے کہا لیکن ملزمان نے ان کی معافی قبول نہیں کی، انھوں نے اپنے ملازم اور تالپور خاندان کے باورچی لاشاری کے مطمئن ہونے سے معافی کو مشروط قرار دیا۔
شاہزیب کی والدہ نے اپنے بیٹے کو فوری طور پر وہاں سے روانہ ہونے کے لیے کہا، لیکن شاہ رخ جتوئی مقتول کو اسلحے کے زور پر دھمکاتے رہے، اور دیگر 4 ملزمان بھی موقع پر موجود تھے، تاہم بعد ازاں شاہ زیب کو ان کی رہائش گاہ خیابانِ بحریہ میں قتل کیا کردیا گیا تھا۔