ارتھ۔ دی ڈیسٹینیشن؛ بہترین کہانی اور فلاپ موسیقی کا ملاپ
رواں برس کے جاتے جاتے، پاکستانی سینما کے اُفق پر ایک اور فلم طلوع ہوئی ہے، جس کا نام ’ارتھ۔دی ڈیسٹینیشن‘ ہے۔ یہ انڈین فلم ’ارتھ‘ کا سیکوئل ہے۔ اِس فلم کو پہلا پاکستان بھارت مشترکہ فلمی منصوبہ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ اِس فلم کے مرکزی خیال کے حقوق خریدنے کے بعد اِسے بنایا گیا ہے۔
اِس فلم کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ وہ پہلی پاکستانی فلم ہے جس کی پوسٹ پروڈکشن کے لوازمات کو برطانیہ کے سب سے بڑے فلم اسٹوڈیو ’پائن وڈ‘ میں پورا کیا گیا۔ یہ فلم ایک مختلف تناظر میں بھی اہم اِس لیے ہے کہ شان شاہد نے معروف بھارتی ہدایت کار مہیش بھٹ کی خواہش پر اِس فلم کا سیکوئل بنانے کا فیصلہ کیا۔
یہ دھیان میں رہے کہ شان شاہد وہ پاکستانی اداکار ہیں جو اپنے پورے فلمی کریئر میں اِس بات پر ڈٹے رہے کہ وہ بولی وڈ میں کام نہیں کریں گے، مگر پاکستانی سینما کے ماضی میں گوہر نایاب موجود ہونے کے باوجود سیکوئل بنانے کے لیے اُن کی تان بھارتی فلم پر ہی آکر ٹوٹی۔
کہانی
فلم کا مرکزی خیال اور کرداروں کی بنت وہی ہے، جو انڈین فلم ’ارتھ‘ کی تھی۔ انڈین فلم ارتھ کا اسکرین پلے مہیش بھٹ اور سجیت سین نے لکھا تھا۔ پاکستانی سیکوئل میں اسکرین پلے سمیت، مکالمے بھی شان شاہد نے ہی لکھے ہیں، جبکہ وہ اِس فلم کے ہدایت کار بھی ہیں۔
اِس کہانی میں چار مرکزی کردار ہیں، جن میں ایک کردار گلوکار کا ہے، دوسرا ایک مصنفہ کا اور تیسرا ایک اداکارہ جبکہ چوتھا کردار ایک فلم ساز کا ہے، پوری فلم اِنہی کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ کس طرح ایک عورت اپنے شوہر اور ایک مرد اپنی بیوی سے طلاق لیتا ہے اور پھر کس طرح جُڑے ہوئے رشتے ٹوٹنے کے بعد پھر سے جُڑنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔
کہانی کو بہت ہی اچھے انداز میں لکھا گیا، کہیں کوئی جھول نہیں، باریک بینی سے لکھی جانے والی اِس کہانی کو دیکھ کر حیرت ضرور ہوئی کہ شان شاہد کے اندر ایک اچھا اسکرپٹ رائٹر بھی چُھپا ہوا ہے، جو اِس فلم کے ذریعے نمودار ہوا ہے۔ فلم کے مکالمے بعض جگہوں پر تھوڑے کمزور محسوس ہوئے، مگر مجموعی حیثیت میں کہانی جس انداز میں بیان کی گئی وہ واقعی قابلِ ستائش ہے۔
فلم سازی
اِس فلم کے تین پروڈیوسر، حماد چوہدری، فراز چوہدری اور شان شاہد ہیں۔ بطورِ پروڈیوسر اِن سب نے اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کیں۔ اِس فلم کے حوالے سے بجٹ کا پھیلاؤ بھی کافی محسوس ہوتا ہے۔ کئی غیر ملکی تکنیک کاروں کی معاونت بھی حاصل کی گئی، جس کی وجہ سے فلم پر بجٹ کا دباؤ تو بڑھا ہوگا مگر پوسٹ پروڈکشن کا کام اچھے طریقے سے ہوجانے کے بعد اسکرین پر فلم کے مناظر میں جان پڑگئی ہے۔
برطانیہ کے معروف فلم اسٹوڈیو ’پائن وڈ‘ کی معاونت سمیت مختلف پہلوؤں سے بیرونی رابطے اور وسائل کا استعمال واضح طور پر محسوس ہوتا ہے۔ فلم کی عکس بندی لندن، لاہور اور اسلام آباد میں ہوئی۔ فلم کی تشہیری مہم جس انداز میں چلنی چاہیے تھی، اُس طرح سے تو نہیں چل سکی، مگر اِس کے باوجود فلم کا آفیشل ٹریلر اور دیگر ویڈیوز نے فلم بینوں کو اپنی طرف متوجہ ضرور کیا۔ فلم دیکھنے کے بعد بھی یہ تاثر اِس حد تک ضرور برقرار رہا کہ تکنیکی پہلوؤں سے یہ ایک بہترین فلم ہے۔
ہدایت کاری
شان شاہد اب ایک مَنجھے ہوئے ہدایت کار بھی ہیں۔ وہ اپنی ابتدائی ہدایت کردہ فلم ’گنز اینڈ روزز‘ سے اب تک بہتر سے بہتر کی جستجو میں ہیں۔
عہدِ حاضر کی جدید ٹیکنالوجی اور تکنیک نے اُن کے کام کو مزید آسان کردیا ہے، لیکن اِس کے باوجود شان کو کچھ چیزوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح دو، تین چیزیں اُن کی ہر ہدایت کردہ فلم پر غالب دکھائی دیتی ہیں، اُنہیں ایک تو نیم تاریکی کے مناظر فلمانے کا بہت شوق ہے، فیس پورٹریٹ فریم بہت پسند ہیں، لیکن اِس کا زیادہ استعمال کرنے سے فلم کے مناظر میں یکسانیت محسوس ہونے لگتی ہے۔
اِس فلم کے لیے تو انگریزی ٹھیک رہی، مگر شان اپنی ہر فلم کے نام اور کہانی میں انگریزی کا استعمال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ کیا ہی اچھا ہو کہ وہ اپنی اِس خواہش کو پوری طرح پایہ تکمیل تک پہنچائیں اور ایک مکمل انگریزی فلم بنائیں۔
یہ بات سنجیدگی سے کہی جا رہی ہے، کیونکہ اُن میں اتنی صلاحیت ہے اور وہ ایک اچھی انگریزی فلم بنا سکتے ہیں، مگر اردو فلم بناتے وقت اُنہیں اپنے فلم بین کو یاد رکھنا ہوگا کہ وہ کون ہیں۔
انگریزی مکالمات کا اسکرین پر اردو ترجمہ دینے کا تو رواج ہی نہیں، اِس سے پہلے حسن رانا کی فلم ’یلغار‘ اور بلال لاشاری کی ’وار‘ میں بھی انگریزی کا بے جا استعمال دکھائی دیا تھا۔
اداکاری
شان شاہد ایک اچھے اداکار ہیں، اِس میں تو کوئی شک نہیں اور اِس فلم میں بھی وہ اپنی عمدہ اداکارانہ صلاحیتوں کے معیار کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ حمائمہ ملک اور عظمٰی حسن نے بھی اپنی اداکاری سے فلم میں خود کو نمایاں رکھا، مگر چوتھے کردار یعنی محب مرزا کہانی سے الگ دکھائی دیے۔ اُن کی اداکاری زیادہ دم دار نظر نہیں آئی۔ مہمان اداکاروں کے طور پر علی عظمت اور ایمو نے بھی اپنے اچھے اداکار ہونے کا ثبوت دیا۔ اداکاری کے لحاظ سے بھی یہ فلم مناسب ہے۔
موسیقی
اگر اِس فلم کی باکس آفس پر کمر ٹوٹی تو اِس کی وجہ موسیقی کا شعبہ ہوگا، جس میں اَن گنت غلطیاں کی گئیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ فلم موسیقی کے مرکزی خیال پر مبنی ایک گلوکار کی کہانی تھی، جس سے فلم شروع ہوتی ہے اور اسکرین پر زیادہ تر حصہ اُسی کردار کا ہے، مگر فلم کی موسیقی ترتیب دیتے ہوئے شاید اِس بات کو ذہن میں نہیں رکھا گیا۔
فلم کاپہلا گیت پوری فلم اور اُس گلوکار سے ہَٹ کر ہے، بعد میں آنے والے تمام گیت ایک روٹین کی موسیقی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں، سوائے اُس گیت کے جسے فلم کا کلائمکس بنانے کے لیے استعمال کیا گیا، اور جس میں راحت فتح علی خان کو ہارمونیم دے کر بٹھانے کے بجائے پوپ گلوکاروں کی طرح کھڑا کرکے گیت گوایا گیا۔
ساحر علی بگا اِس فلم کے موسیقار اور گلوکار ہیں۔ اُن کی موسیقاری کی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے مگر کوک اسٹوڈیو میں ناکام کوشش کے بعد وہ اِس فلم میں بطور گلوکار گیت گا کر متاثر کرنے میں بھی ناکام رہے۔ اِس فلم کے لیے علی عظمت جیسے گلوکار کی صلاحیتوں سے استفادہ کرلیا جاتا تو شاید بات بن جاتی مگر اُن سے تو صرف فلم میں جگتیں کروائی گئیں۔
یہ ایک میوزیکل رومانوی فلم ہے مگر اسکرین پر یہ دل کے تار چھونے میں ناکام رہی۔ پسِ منظر میں استعمال ہونے والی شاعری میں ایک غزل جون ایلیا کی بھی شامل ہے، جس کا کریڈٹ کہیں دکھائی نہیں دیا۔ اس صورتحال پر جون ایلیا کی کتابوں کے ایڈیٹر اور مُحقق خالد احمد انصاری نے مجھ سے اپنی گفتگو میں اِس رویے پر افسوس کا اظہار کیا۔ موسیقی کے حوالے سے یہ ایک مایوس کن فلم ثابت ہوئی۔ فلم میں شامل جون ایلیا کی غزل سے ایک بند ملاحظہ کیجیے۔
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
نتیجہ
یہ ایک ہلکی پھلکی رومانوی فلم کے طور پر دیکھی جائے تو آپ کو مایوسی نہیں ہوگی، مگر ایک میوزیکل رومانوی فلم کا ذہن بناکر اسکرین کے سامنے بیٹھیں گے تو پھر نقصان کے ذمے دار آپ خود ہوں گے، یہ خسارہ جذباتی بھی ہوسکتا ہے اور مالی بھی۔