آرمی چیف کی ان کیمرابریفنگ کی تشہیر پرچیئرمین سینیٹ اراکین پربرہم
چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے سینیٹرز کی جانب سے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی ان کیمرہ بریفنگ کی تفصیلات سے آگاہ کرنے پر نوٹس لیتے ہوئے اس عمل کوایوان بالا کے قواعد کے خلاف ورزی قرار دے دیا۔
رضاربانی نے سینیٹ اجلاس کی بریفنگ کی تفصیلات عام کرنے پر سینیٹرز پربرہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ قاعدہ 225 سینیٹ کے ان کیمرا سیشن کی تشہیر کو روکتا ہے اور تفصیلات عام کرنے کی اجازت نہیں دیا۔
چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ فاضل ممبران نے ایوان کے تقدس کو پامال کیا ہے اور ایوان کا استحقاق مجروح کرنے پر معاملہ ہاؤس بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے سپرد کیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ آپ سب پارلیمان کے اندر کافی عرصے سے ہیں اور قواعد وضوابط سے آگاہ ہیں، ان کیمرا اجلاس کی بات باہر نہیں کی جاتی، قواعد کے مطابق کوئی بھی ان کیمرہ اجلاس کی تشہیر نہیں کر سکتا، اگر ہم اس طرح کا رویہ رکھیں گے تو کوئی بھی ہاؤس کو اعتماد میں نہیں لے پائے گا۔
رضا ربانی نے کہا کہ ایوان کا استحقاق مجروح کرنے پر معاملہ ہاؤس بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے سپرد کیا جاتا ہے، کمیٹی اس معاملے کی جانچ پڑتال کرکے آئندہ ان کیمرہ اجلاس کی حکمت عملی تیار کرے گی، کمیٹی میں قائد ایوان، قائد حزب اختلاف اور تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنما شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:فوجی حکام کی سینیٹرز کو 4 گھنٹے طویل اِن کیمرہ بریفنگ
چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ مستقبل میں ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے حکمت عملی تیار کی جائے۔
سینیٹر نعمان وزیر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) آئی ایس پی آر میجرجنرل آصف غفور نے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کی ہے۔
تاہم چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ان کیمرہ اجلاس کی تفصیل بتائے بغیر عمومی بات کی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایک بات دو ٹوک الفاظ میں کہتا ہوں کہ میڈیا پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی، نہ پہلے ایسا کیا اور نہ ہی مستقبل میں ایسا ہوگا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر سعود مجید نے کہا کہ میڈیا نے اراکین کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا اور بعد ازاں انھوں نے ان کیمرا اجلاس کے حوالے سے خبریں جاری کر دیں۔
چیئرمین سینیٹ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کا تو کام ہی خبر دینا ہے، خبر لیک نہ ہو یہ حلف ارکان نے دیا تھا میڈیا نے نہیں، میڈیا پر کسی قسم کی قدغن نہیں لگا رہے بلکہ ہم ارکان سینٹ پر قدغن لگائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ میڈیا اپنا کام کرنے اور خبر دینے میں آزاد ہے، میڈیا کو کنٹرول کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
رضا ربانی نے کہا کہ اگر میں خود کیمرے کے سامنے کھڑا ہوجاؤں تو میڈیا کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جنرل قمرجاوید باجوہ نے سینیٹ میں ان کیمرا اجلاس میں بریفنگ کے دوران جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر اپنے عزم کا اظہار کیا اور فوج کی جانب سے عوامی حکومت کو ختم کرنے کے تاثر کو یکسر مسترد کردیا۔
آرمی چیف کے ہمراہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹننٹ جنرل نوید مختار، ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن (ڈی جی ایم او) میجرجنرل ساحر شمشاد مرزا اور ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) میجرجنرل عاصم منیر بھی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے تھے۔
'فیض آباد دھرنے پر حکومت کواکیلا چھوڑا گیا'
سینیٹ میں فیض آباد دھرنے کے حوالے سے جمع تحریک التوا پر بات کرتے ہوئے وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری نے کہاہے کہ فیض آباد دھرنے کے بعد جو لڑائی گلی محلے میں جاتی اس سے بڑا نقصان ہوسکتا تھا۔
انھوں نے تحریک لبیک یارسول اللہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ این اے 120 میں ضمنی انتخاب میں بھی یہ پارٹی سامنے آئی، اس دھرنا کے بعد جو لڑائی گلی محلہ میں گئی اس سے بڑا نقصان ہوسکتا تھا، اس دھرنے کا اختتام ہوا لیکن کہہ سکتے ہیں وہ مثالی نہیں تھا۔
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ مذاکرات ہماری مجبوری اس لیے بنی کہ حکومت کو اکیلا کر دیا گیا تھا حالانہ جس قانون کو پارلیمان نے بنایا تھا اس پر نشانہ صرف حکومت کو ہی بنایا گیا جبکہ کسی سیاسی جماعت نے نہیں کہا کہ یہ اجتماعی غلطی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے اس حوالے سے کارروائی کیوں نہیں کی اس پر بات ہو رہی ہے تاہم علما نے ہمیں شریعت اور سنت کے نام پر دھوکا جبکہ کارروائی عدالتی حکم اور توہین عدالت کے نوٹس ملنے پر کی گئی تھی۔
انھوں نے کہا کہ عدالتی حکم بھی مشروط تھا، ایسا ایکشن ہوا جس میں فورس کے پاس نہ ہتھیار تھے نہ اختیار تھا جس کے نتیجے میں احتجاج پورے ملک میں پھیل گیا۔
تحریک التوا پر وزیر مملکت نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ دھرنوں کا رواج 2012 سے قائم ہوا، پہلا دھرنا احتساب اور پھر انتخاب کا ہوا جس پر بھی ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت دھرنا ختم ہوا، اس معاہدے کے نکات بھی پیش کیے جاسکتے ہیں تاہم اس وقت حزب اختلاف نے حکومت کا ساتھ دیا۔
فیض آباد دھرنے کے حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فیض آباد دھرنے کو پنڈی کی طرف سے مدد ملتی رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ 2014 میں پھر دھرنا ہوا، حکومت نے پھر مذاکرات کیے، اس دوران ایک ایس ایس پی پر تشدد ہوا اور مقدمات بھی درج ہوئے حالانکہ اس وقت دھرنا 126 روز بعد ختم ہوا، وہ دھرنا اس لئے ختم ہوا کہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے اپنا وزن حکومت کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔
طلال چوہدری نے کہا کہ معاہدوں کے باعث فورس کوئی ایکشن نہیں لے سکتی، وہ ڈی مورلائز ہوتے ہیں، قیدیوں کی وین سے ملزمان کو چھڑا کر سیاسی قائدین لے جاتے رہے، یہ توہین رسالت کے حوالے سے بات تو اب سامنے آئی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ایک اہلکار اسرار نے بہادری سے مقابلہ کیا لیکن بدقسمتی سے اس کی آنکھ ضائع ہوگئی، جن کو ابتدائی طور پر پانچ لاکھ روپے دیے گئے ہیں اور ڈاکٹروں کا بورڈ بنا رہے ہیں، اگر باہر بھیجنے کی ضرورت ہوئی تو باہر بھیجیں گے۔
طلال چوہدری نے کہا کہ ایسے دھرنوں سے نمٹنے کے لیے ایک طریقہ کار پارلیمنٹ بنائے لیکن ہم ایک اینٹی رائٹس فورس بنا رہے ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں