کیا کمزور مسلم حکمران ’یروشلم‘ کی حفاظت کرسکیں گے؟
ٹرمپ کا امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ واضح طور پر تصدیق کرتا ہے کہ امریکا کی نظر میں بین الاقوامی قوانین، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی معاہدوں کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ اُسے دنیا بھر میں کوئی بھی دیانتدار ثالث نہیں مانتا۔ اِس کا اثر و رسوخ اِس کے قائدانہ کردار کی وجہ سے نہیں بلکہ اِس کی طاقت کی وجہ سے ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کو دانشورانہ سطح پر مسترد کردیا گیا ہو مگر یہ اب بھی امریکا پر حاکم عسکری، کارپوریٹ، مالیاتی (ایم سی ایف سی) گٹھ جوڑ کی پالیسیوں میں زندہ ہے۔
اِن میں سے کسی کو بھی دنیا میں مسلمانوں کی بُری حالتِ زار کے بارے میں حقائق کو چھاپانا نہیں چاہیے۔ اِس کے کئی حکمران اپنے ہی لوگوں کے دشمنوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ وہ اُن کی انسانی اور سیاسی ترقی کے خلاف کام کرتے ہیں کیوں کہ اُنہیں خوف ہے کہ اِس سے اُن کی طاقت ختم ہوجائے گی۔
مشرقِ وسطیٰ میں یوں تو لاتعداد بحران ہیں، مگر فلسطین-اسرائیل تنازع تمام تنازعات کی 'ماں' ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں میں اِس نے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر خطے میں اور کچھ حد تک پوری مسلم دنیا میں آگ بھڑکائی ہے۔ خطے میں دوسرے بحران وقتاً فوقتاً اپنی شدت، خون ریزی اور علاقائی و بین الاقوامی اثر میں فلسطین-اسرائیل تنازعے کو بھی گہنا دیتے ہیں۔
مگر اِس عظیم ترین مسئلے کے حل کے بغیر اِس خطے کے لوگ امریکا اور اسرائیل کی بڑھتی ہوئی بربریت اور ظالمانہ حملوں؛ اُن کی گھبرائی ہوئی بادشاہتوں اور آمریتوں؛ اور ملکی اور غیر ملکی دہشتگرد حملوں کے شکار بننے والوں اور انتہاپسندوں کے حملوں کا نشانہ بنتے رہیں گے۔ فلسطینیوں، عربوں، مسلمانوں اور دیگر کمزوروں کے لیے یہ جہنم درحقیقت امریکی ایم سی ایف سی اور اِس کے علاقائی پٹھوؤں کے لیے جنت ہے۔
اسرائیل نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ کوئی بھی ایسا سمجھوتہ نہیں ہونے دے گا جس میں دونوں فریقوں کی جیت ہو اور اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کا فائدہ ہو۔
امریکا اور علاقائی پٹھوؤں کی حمایت سے اسرائیل ایسا حتمی حل چاہتا ہے جس سے یا تو فلسطینی بتدریج فلسطین سے نکل جانے پر مجبور ہوجائیں، یا پھر کچھ بے معنی اور مکمل طور پر منحصر ہوکر کچھ بستیوں تک محدود ہوجائیں، جن کے بیچ میں مغربی کنارے کو ٹکڑوں میں کاٹ دینے والی پھیلتی ہوئی اسرائیلی آبادیوں کی وجہ سے بہت زیادہ فاصلہ ہوگا۔
اِس کے علاوہ مغربی کنارہ مکمل طور پر غزہ سے کٹ جائے گا۔ فلسطینی، غزہ میں اسرائیل اور مصر کے درمیان جبکہ مغربی کنارے میں اسرائیل اور اردن کے درمیان قید ہوکر رہ جائیں گے۔
فلسطینیوں کو ایک آزاد سیاسی برادری کبھی نہیں بننے دیا جائے گا۔ باقاعدگی سے ہونے والے فوجی حملے اُنہیں اُن کی مایوس کن صورتحال سے سمجھوتے پر مجبور کرنے کے لیے ہیں۔ وہ لوگ جو زمین پر جہنم جیسی زندگی سے سمجھوتہ کرنے سے انکار کریں گے، اُنہیں دہشتگرد قرار دے کر گلوبل اسیسینیشن پروگرام (جی اے پی) کے تحت ڈرونز اور بلیک آپریشنز کے ذریعے ٹھکانے لگا دیا جائے گا۔ اسرائیل اور امریکا کے اِس حتمی حل کو علاقائی پٹھوؤں کی حمایت اور مدد حاصل ہے۔
مودی کے ذہن میں بھی مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں ایسا ہی حتمی حل ہے۔ اُن کے پاس ایسی ہی امریکی حمایت ہے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت پاکستان کشمیریوں کی مسلح جدوجہد کی مدد کرسکتا ہے تاکہ وہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ حقوق حاصل کرسکیں، جو ہندوستان اُنہیں دینے سے انکاری ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ اِس کا مطلب کسی بھی دہشتگرد حملے کی حمایت نہیں ہے۔
مگر بہرحال، جدوجہدِ کشمیر کی حمایت کے لیے دیگر زیادہ مؤثر آپشنز موجود ہیں جن میں مؤثر اور انتھک سفارتکاری، ہندوستان کو کشمیریوں کے لیے قابلِ قبول حل پر راضی کرنا، کشمیر اور ہندوستان و پاکستان کے درمیان باہمی اعتماد سازی کے اقدامات پر عمل کرنا، لائن آف کنٹرول پر دائمی جنگ بندی اور ہندوستان کے ساتھ تجارت اور دیگر تبادلوں میں اضافہ شامل ہے۔
او آئی سی سیاسی طور پر غیر فعال ہے۔ مگر صدر اردگان کی زیرِ قیادت استنبول کانفرنس نے ایک نئی شروعات کی ہے۔ سعودی عرب نے ایک کم درجے کے نمائندے کو بھیجا۔ افسوس کی بات ہے کہ مصر کے ساتھ ساتھ یہ بھی اسرائیل اور امریکا کا اتحادی ہے، جو کہ بظاہر ایران کے خلاف ہے، مگر حقیقت میں فلسطینیوں اور پورے خطے کے لوگوں، بشمول اُن کے اپنے لوگوں کے خلاف ہے۔
اردگان کی جانب سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ ایک اہم قدم ہے، جس کا مقبوضہ دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔ انہوں نے ٹرمپ کی اشتعال انگیزی کو مسلم دنیا کے لیے ’ایک موڑ‘ قرار دیا۔ بدقسمتی سے آج مسلم دنیا اپنے ہی کسی کام کی نہیں، کیوں کہ اُس پر وہ لوگ حکمران ہیں جو اپنے ہی لوگوں کی قوت سے خوفزدہ ہیں۔
ایک گلوبلائز ہوتی ہوئی دنیا میں بین الاقوامی رویوں کے بنیادی اصول و ضوابط کا خیال رکھا جانا چاہیے، جو کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں بھی موجود ہیں۔ مغرب، بشمول امریکا، اِس بات پر فخر کرتا ہے کہ وہ ایسی ثقافت اور تہذیب ہے جس نے اِن "دورِ جدید" کے رویوں اور تقاضوں کو اپنا رکھا ہے۔ مگر ایک ایسی دنیا جس میں ٹیکنالوجی، طاقت اور ہوس کا دور دورہ ہو، وہاں اِن باتوں کی کوئی اہمیت نہیں رہتی، پھر چاہے انسانی بقاء کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کتنے ہی مباحثے کرلیے جائیں۔
اقوامِ متحدہ کا چارٹر دنیا کا اپنے آپ سے وعدہ تھا کہ اِن شیطانی پالیسیوں اور نظریوں کو دوبارہ نہیں دہرایا جائے گا جس کی وجہ سے دو عظیم جنگیں اور ہولوکاسٹ ہوا، مگر افسوس کہ چارٹر آج روندا جاچکا ہے۔ اِس کی وجہ ’واحد ہائپر پاور‘ کی پالیسیاں ہیں۔ سرد جنگ کے اختتام، بالخصوص 11 ستمبر کے بعد سے اقوامِ متحدہ کے امن بحالی، قیامِ امن اور امن برقرار رکھنے کے مشنز کو کچھ کامیابی تو ملی ہے، مگر جہاں امریکی فوجی حملوں اور بلیک آپریشنز نے پورے سیاسی معاشروں کو تباہ کردیا ہو، وہاں وہ سیاسی طور پر غیر ضروری بن کر رہ گئے ہیں۔
11 ستمبر بلاشبہ ایک نہایت سفاکانہ دہشتگرد حملہ تھا مگر وہ امریکا اور اُس کے اتحادیوں کی جانب سے مسلم ممالک میں کی گئی ریاستی دہشتگردی کے سامنے ماند پڑجاتا ہے۔ یروشلم سے متعلق ٹرمپ کا تازہ ترین فیصلہ مسلمانوں اور دنیا کے دیگر لوگوں کے لیے ایک اور صدمہ انگیز باب کھولنے کے مترادف ہے۔
کشمیر کے معاملے پر ہندوستان کی ہٹ دھرمی اور سیاسی موقع پرستی خاص طور پر ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے ایسا ہی ایک خطرہ ہے۔ مسئلہ کشمیر کے ایک منصفانہ حل کے لیے پاکستان کی کوششوں کو اِن حقائق اور خطرات کو مدِنظر رکھنا ہوگا۔
انسدادِ دہشتگردی اور علاقائی امن کے نام پر امریکا اور اُس کے آلہ کاروں کی ریاستی اور غیر ریاستی دہشتگردی، پہلے سے کہیں زیادہ تباہ کن تنازعات اور انسانی ہجرت سے بھرپور ایک اور صدی یقینی بنا رہے ہیں جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ یہ اتنے طاقتور مگر گرے ہوئے لوگ ہیں جوکہ دنیا کے خاتمے سے بھی فائدہ اُٹھانے کی کوششوں میں ہیں۔
کشمیر اور فلسطین جیسے خطرناک مسائل کا حل صرف انسانی عظمت کی بحالی اور انسانی حقوق کو یقینی بنانے پر بین الاقوامی اتفاق سے ہی ممکن ہے، اور اِس میں کوئی استثنیٰ نہیں ہونا چاہیے۔ اقوامِ متحدہ کے گرد گھومتا ایک نیا ورلڈ آرڈر اور ایک ترمیم شدہ چارٹر اکیسویں صدی میں انتہائی ضروری ہے۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 18 دسمبر 2017 کو شائع ہوا۔
تبصرے (3) بند ہیں